تشریح:
(1) جسمانی، ذہنی اور مالی قوت اللہ کی ایک نعمت ہے، اس نعمت کو نیکی کے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے۔
(2) جو شخص کسی قسم کی قوت میں دوسروں سے کم تر ہے وہ بھی خیر سے محروم نہیں۔ ممکن ہے کہ ایک قوت کے لحاظ سے کمزور شخص، دوسری قوت کے لحاظ سے قوی ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کسی کو جو صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اسے نیکی کے حصول و فروغ اور برائی سے بچنے اور بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
(3) دنیوی فوائد کے حصول کی کوشش کرنا توکل کے منافی نہیں، البتہ اس کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنا، یا دنیوی فوائد کی حرص کو ذہن پر اس طرح سوار کر لینا کہ زیادہ توجہ ادھر ہی رہے، درست نہیں ہے۔
(4) شریعت میں یہ چیز مطلوب نہیں کہ کوئی شخص خود محنت کر کے کمانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن کر بیٹھ جائے۔ اس رویہ کو توکل قرار دینا غلط ہے، البتہ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا، وہ معذور ہے اور مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ اس کی ضروریات پوری کرے۔
(5) کوئی کام کرنے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور اور مشورہ کر لینا چاہیے، لیکن اگر بعد میں کسی وجہ سے نتائج توقع کے خلاف نکلیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اور سمجھ لیں کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہو گی، اگر مگر کہنے سے تقدیر الہی کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اور یہ شیطانی فعل ہے کہ آدمی کو خلاف توقع نتیجہ نکلنے پر حسرت دلواتا ہے اور تقدیر کا منکر بناتا ہے۔
(6) کسی کام کا نتیجہ خلاف توقع نکلنے کے بعد جب اس کی تلافی ممکن نہ ہو، تو منفی سوچوں میں گھر جانا، نہ صرف بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہے۔ بعد میں یہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں: کاش میں نے فلاں کام یوں کر لیا ہوتا، کاش میں فلاں کام اس طرح نہ کرتا۔ البتہ اپنے کام کا تنقیدی جائزہ لینا درست ہے تاکہ جو غلطی ہوئی ہے، دوبارہ اس سے بچا جائے۔