تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) آپس میں سلام اور نماز میں آمین کہنا مسلمان معاشرے کی ایک ایسی خوبی ہے۔ جسے غیر مسلم بھی محسوس کرتے ہیں۔
(2) حسد کی وجہ سے وہ خود تو اس نیکی کو اختیار نہیں کرتے۔ البتہ یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ مسلمان ایسی خوبیوں سے محروم ہوجایئں۔
(3) آپس میں ملاقات کے وقت مسلمانوں کا طریقہ ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنا ہے۔ جو مختصر الفاظ کا ایک جملہ ہونے کے باوجود ایک بہترین دعا ہے۔ یہودونصاریٰ اولاً تو ہاتھ کے اشارے پراکتفا کرتے ہیں۔ یا ’’ہیلو، ہائے‘‘ کے الفاظ بولتے ہیں۔ جن میں دعا کا عنصر سرے سے شامل نہیں یا ’’گڈمارننگ، گڈ ایوننگ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔جس میں خیر کی خواہش محدود کردی گئی ہے۔ ’’صُبح بخیر، شب بخیر‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی انہی کی نقل ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کا طریقہ دعا پر مبنی ہے۔ اور دعا بھی محدود وقت کے لئے نہیں۔ ان لوگوں کا رویہ قابل افسوس ہے۔ جو اس بہترین دعا کوچھوڑ کر غیر مسلموں کے فضول اور بے فائدہ جملے اختیار کرتے ہیں۔
(4) ’’آمین‘‘ کا مطلب ہے۔ ’’قبول فرما‘‘ یہ گویا مفصل دعا کے بعد مختصر انھی دعائوں کی تکرار ہے۔ یہود ونصاریٰ بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے۔ یہ انھوں نے مسلمانوں ہی سے سیکھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے انبیائے کرام علیہ السلام کی جو تعلیمات تحریف سے بچ کر ان تک پہنچ گئی ہیں۔ ان میں یہ بھی شامل ہو۔اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ یہ خوبیوں بھرا لفظ مسلمانوں کے استعمال میں آئے۔ ان کی حالت تو وہ ہے۔ جو قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ ﴿مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ (البقرۃ:105) اہل کتاب اور (دیگر) مشرکین اور کافر یہ پسند نہیں کرتے۔ کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھی بھلائی نازل ہو۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں کے بہکاوے میں نہ آیئں اور سلام اور آمین جیسے پاکیزہ آداب سے کنارہ کش نہ ہوں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في السلسلة الصحيحة 2 / 312 :
أخرجه ابن خزيمة في صحيحه ( 1 / 73 / 2 ) : حدثنا أبو بشر الواسطي أنبأنا
خالد يعني ابن عبد الله عن سهيل - و هو ابن أبي صالح - عن أبيه عن عائشة
قالت : دخل يهودي على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : السام عليك يا
محمد فقال النبي صلى الله عليه وسلم : و عليك ، فقالت عائشة : فهممت أن أتكلم ،
فعلمت كراهية النبي صلى الله عليه وسلم لذلك ، فسكت . ثم دخل آخر ، فقال :
السام عليك فقال : عليك ، فهممت أن أتكلم ، فعلمت كراهية النبي صلى الله عليه
وسلم لذلك ، ثم دخل الثالث فقال . السام عليك ، فلم أصبر حتى قلت : و عليك
السام و غضب الله و لعنته إخوان القردة و الخنازير ! أتحيون رسول الله بما لم
يحيه الله ؟ ! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله لا يحب الفحش و لا
التفحش ، قالوا قولا فرددنا عليهم ، إن اليهود ... . و رواه أبو نعيم أيضا .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ، و أبو بشر الواسطي اسمه
إسحاق بن شاهين و هو من شيوخ البخاري . و الحديث أخرجه ابن ماجه ( 1 / 281 ) من
طريق حماد بن سلمة حدثنا سهيل بن أبي صالح به مقتصرا على الجملة المذكورة أعلاه
بنحوه . و قال البوصيري في الزوائد : هذا إسناد صحيح ، احتج مسلم بجميع
رواته . و للحديث طريق أخرى ، يرويه حصين بن عبد الرحمن عن عمرو بن قيس عن
محمد بن الأشعث عن عائشة قالت : بينا أنا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ
استأذن رجل من اليهود ... الحديث بتمامه نحوه و أتم منه إلا أن لم يذكر الحسد
على السلام و لفظه : لا يحسدوننا على شيء كما يحسدوننا على يوم الجمعة التي
هدانا الله و ضلوا عنها و على القبلة التي هدانا الله لها و ضلوا عنها و على
قولنا خلف الإمام : آمين . و هذا إسناد جيد رجاله ثقات رجال مسلم غير محمد بن
الأشعث و قد وثقه ابن حبان و روى عنه جماعة و هو تابعي كبير . و للترجمة شاهد من حديث أنس بلفظ :
إن اليهود ليحسدونكم على السلام و التأمين .