قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا} [الإسراء: 85])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

125.  حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ المَدِينَةِ، وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ اليَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ تَسْأَلُوهُ، لاَ يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ يَا أَبَا القَاسِمِ مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: «(وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتُوا مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا)». قَالَ الأَعْمَشُ: هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.

مترجم:

125.

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے: میں نبی ﷺ کے ساتھ مدینے کے ویرانے میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ راستے میں چند یہودیوں کے پاس سے گزر ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو۔ ان میں سے ایک نے کہا: تم ان سے ایسا سوال نہ کرو کہ جس کے جواب میں وہ ایسی بات کہیں جو تمہیں ناگوار گزرے۔ بعض نے کہا: ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ آخر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ خاموش رہے۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی اتر رہی ہے، چنانچہ میں کھڑا ہو گیا۔ جب وحی کی کیفیت ختم ہو گئی تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے مالک کا حکم ہے۔ اور انہیں بہت کم علم عطا کیا گیا ہے۔‘‘ امام اعمش نے کہا کہ ہماری قراءت میں ایسا (بصیغہ غائب) ہی ہے۔