قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ إِذَا بَيَّنَ البَيِّعَانِ وَلَمْ يَكْتُمَا وَنَصَحَا)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُذْكَرُ عَنِ العَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: كَتَبَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا مَا اشْتَرَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنَ العَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ، بَيْعَ المُسْلِمِ مِنَ المُسْلِمِ، لاَ دَاءَ وَلاَ خِبْثَةَ، وَلاَ غَائِلَةَ» وَقَالَ قَتَادَةُ: «الغَائِلَةُ الزِّنَا، وَالسَّرِقَةُ، وَالإِبَاقُ» وَقِيلَ لِإِبْرَاهِيمَ: إِنَّ بَعْضَ النَّخَّاسِينَ يُسَمِّي آرِيَّ خُرَاسَانَ، وَسِجِسْتَانَ، فَيَقُولُ: جَاءَ أَمْسِ مِنْ خُرَاسَانَ، جَاءَ اليَوْمَ مِنْ سِجِسْتَانَ، فَكَرِهَهُ كَرَاهِيَةً شَدِيدَةً وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرِئٍ يَبِيعُ سِلْعَةً يَعْلَمُ أَنَّ بِهَا دَاءً إِلَّا أَخْبَرَهُ»

2079. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ رَفَعَهُ إِلَى حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عداءبن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عداءبن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ  نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی سے کسی نے کہا کہ بعض دلال ( اپنے اصطبل کے ) نام ” آری خراسان اور سجستان “ ( خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل ) رکھتے ہیں اور ( دھوکہ دینے کے لیے ) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے ” خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے “ تشریح : قاضی عیاض نے کہا کہ صحیح یوں ہے کہ عداءکے خریدنے کا بیان ہے نبی کریم ﷺسے، جیسے ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ نے اسے وصل کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے یہاں اشتریٰ باع کے معنی میں آیا ہو یا معاملہ کئی بار ہوا ہو۔ غلام کے عیب کا ذکر ہے یعنی وہ کانا، لولا، لنگڑا فریبی نہیں ہے۔ نہ بھاگنے والا بدکا رہے مقصد یہ ہے کہ بیچنے والے کا فرض ہے کہ معاملہ کی چیز کے عیب و صواب سے خریدار کو پورے طو رپر آگاہ کردے۔

2079.

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔