قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَهُوَ جَدُّ أَبِي نُوحٍ، وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} [مريم: 57]

3342. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جَاءَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ، قَالَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا جِبْرِيلُ قَالَ: مَعَكَ أَحَدٌ قَالَ: مَعِي مُحَمَّدٌ، قَالَ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَافْتَحْ، فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ اليَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الجَنَّةِ، وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الأَوَّلُ فَفَتَحَ قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ إِدْرِيسَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى، وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ ذَكَرَ: أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ، وَقَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِإِدْرِيسَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا مُوسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ عِيسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا، قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَيَّةَ الأَنْصَارِيَّ، كَانَا يَقُولاَنِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثُمَّ عُرِجَ بِي، حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الأَقْلاَمِ»، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ: مُوسَى مَا الَّذِي فَرَضَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَرَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ: فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ القَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ المُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حضرت نوح ؑکے والد کے دادا تھے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ خود نوح ؑکے دادا تھے اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ ” اور ہم نے ان کو بلند مکان ( آسمان ) پر اٹھا لیا تھا ۔

3342.

حضرت انس  ؓسے روایت ہے، وہ حضرت ابو ذر  ؓسے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب میں مکہ میں تھاتو میرے گھر کی چھت کھول دی گئی۔ پھر حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے اور انھوں نے میرے سینے کو چاک کیا۔ پھر اسے آب زمزم سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک تھال لائے۔ جو حکمت اور ایمان سے بھراہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر چاک شدہ سینے کو بند کردیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان پر لے گئے۔ جب آسمان اول کے قریب آئے تو انھوں نے آسمان کے نگران سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا : یہ کون ہے؟ کہا: میں جبریل ؑ ہوں۔ اس نے پوچھا: آپ کےہمراہ کوئی ہے؟ انھوں نے بتایا: میرے ہمراہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پوچھا : کیا آپ کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں، دروازہ کھولو۔ (اس نے دروازہ کھول دیا۔) جب ہم آسمان دنیا پر چڑھے تو وہاں ایک شخص تھا جس کے دائیں بائیں کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنی دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور جب بائیں جانب نظر کرتا تو رو دیتا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا: خوش آمد ید! اے نبی ﷺ محترم اور پسرمکرم! میں نے حضرت جبریل ؑ سے پوچھا : یہ کون ہے؟ انھوں نے بتایا کہ یہ حضرت آدم ؑ ہیں اور یہ ان کے دائیں بائیں انسانی روحیں ہیں۔ یہ سب ان کی اولاد کی ارواح ہیں۔ ان میں سے دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے دوزخی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف نظر کرتے ہیں تو انھیں رونا آجاتا ہے۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے چڑھا کر اوپر لے گئے حتی کہ ہم دوسرے آسمان تک پہنچ گئے۔ انھوں نے آسمان کے نگران سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے وہی کہا جو پہلے آسمان کے نگران نے کہا تھا۔ پھر اس نے دروازہ کھولا۔ ’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مختلف آسمانوں پر حضرت ادریس، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات فرمائی لیکن انھوں نے ان انبیاءکرام ؑ کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی، صرف اتنا بتایا کہ آپ نے حضرت آدم ؑ کو پہلے آسمان میں اور حضرت ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان میں دیکھا۔ نیز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا: ’’جب حضرت جبریل ؑ (رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ) حضرت ادریس ؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: اے نبی مکرم ﷺ اور برادر محترم خوش آمدید !میں نے پوچھا : یہ کون صاحب ہیں؟ تو حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت ادریس ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: خوش آمدید! اے نیک نبی اور نیک بھائی۔ میں نے پوچھا : یہ کون ہیں؟ تو حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے بھی کہا: اے نیک نبی اور نیک بھائی، مرحباً! میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ تو حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: مرحبا، اے نبی محترم اور پسرمکرم ﷺ !میں نےکہا: یہ کون ہیں؟ تو حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔‘‘ ابن شہاب کہتے ہیں : مجھ سے ابن حزم نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو حیہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر کرتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر مجھے اوپر لے جایا گیا اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا کہ وہاں اقلام کی آواز سن رہا تھا۔‘‘ ابن حزم اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں۔ میں اس فریضے کو لے کر واپس آیا تو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا۔ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ انھوں نے کہا: آپ اپنے رب کے پاس تشریف لے جائیں کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں ہے۔ چنانچہ میں واپس آیا اور اپنے رب سے نظر ثانی کی اپیل کی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں کم کر دیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھو ں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور نظر ثانی کی اپیل کریں، چنانچہ میں نے اپنے رب سے نظر ثانی کی اپیل کی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں کم دیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور انھیں بتایا۔ (کہ اللہ نے نمازوں کا کچھ اور حصہ کم کر دیا ہے۔) موسیٰ ؑ نے کہا: آپ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی۔ (اسی طرح باربار آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا) بالآخر میں رب العالمین کے حضور گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’نمازیں پانچ ہیں مگر ثواب پچاس نمازوں ہی کا باقی رکھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس واپس آیا تو انھوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہیے۔ میں نے کہا کہ اب مجھے اپنے رب کریم سے حیا آتی ہے۔ پھر حضرت جبریل ؑ میرےساتھ ہم سفر ہوئے حتی کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا ہے نہ معلوم وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ موتیوں کے گنبد ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار ہے۔‘‘