تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی اور انداز معیشت بہت سادہ تھا،غذا بھی معمولی تھی جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے، عموماً پانی اور کھجوروں پر گزارا ہوتا، البتہ بعض اوقات کوئی تھوڑا سا گوشت بھیج دیتا تو وہ گھر میں پکا لیا جاتا ورنہ دو، ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دھواں نظر نہیں آتا تھا۔ بعض اوقات آپ کے ہمسائے جن کے پاس دودھ دینے والے جانور ہوتے تھے وہ دودھ بھیج دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اپنے اہل خانہ کو پلا دیتے تھے، کبھی بھنی ہوئی بکری آپ کے سامنے نہ دیکھی گئی، بہرحال کھانے کی چیزیں فراوانی کے ساتھ میسر نہ تھیں۔
(2) ہمارے گھروں میں کئی کئی نرم گرم بستر ہیں لیکن لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بستر تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھیں جبکہ مدنی زندگی میں آپ کے ذرائع معاش حسب ذیل تھے: ٭مال غنیمت: جہاد فی سبیل اللہ کا ایک ثمرہ مال غنیمت بھی ہے۔ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے اس امت کے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا۔ مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچواں حصہ ملتا جو بیت المال کا حصہ ہوتا، تاہم اس سے آپ کی ضروریات بھی پوری کی جاتی تھیں۔ بنونضیر کے باغات، خیبر کی زمین اور باغ فدک اسی مد سے تھا۔ خیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی: دو حصے عام مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ آپ کے اہل وعیال پر خرچ ہوتا تھا۔ ٭ مال فَے: جو مال دشمن سے لڑائی کے بغیر حاصل ہوتا اسے مال فَے کہا جاتا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہوتا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار تھا کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ باغ فَدَک جو بنونضیر کی جلاوطنی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اور وہ بطور مال فَے آپ ہی کے پاس تھا، آپ اس میں کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے اور کچھ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ٭بیت المال میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر تھا۔ آپ نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر مزارعت کے لیے دے رکھی تھی، اس کی پیداوار سے گزراوقات ہوتا، کھجوریں فراوانی سے تھیں۔ جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے لیے اَسّی وسق کھجور اور بیس وسق جَو سالانہ مقرر ہوئے۔ ٭غیر ملکی بادشاہوں کے تحائف کے علاوہ اہل مدینہ کے غیر مسلم لوگوں کی طرف ہدایا کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے تحائف بھی شامل ہیں۔ ٭ایک یہودی کا بیش بہا تحفہ: مخیریق قبیلۂ بنو قینقاع کا ایم امیر ترین یہودی تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت تھی۔ اس کے سات باغ تھے۔ وہ آپ کی معیت میں غزوۂ احد میں شریک تھا۔ اس نے غزوۂ اُحد میں شرکت کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہوں گے۔ وہ اس غزوے میں قتل ہو گیا تو اس کے تمام باغات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگئے۔ (طبقات الکبریٰ: 501/5)
(3) رسول اللہ نے دولت کی فراوانی کے باوجود اپنے لیے سادگی اور قناعت کو پسند فرمایا اور عجزو انکسار کو اوڑھنا بچھونا اور ہر طرح کے ناجائز ذرائع آمدنی سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درویشانہ زندگی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی مانگی تھی: ’’اے اللہ! ہمیں کھانا اتنا میسر ہو جس سے صرف زندگی باقی رہے۔‘‘ اور آپ دوسروں پر ایثار اور ہمدردی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے طور پر بہت سے غلام، لونڈیاں آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس گئیں تاکہ گھر کی خدمت گزاری کے لیے کوئی نوکرانی لائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں، پھر آپ نے انہیں وظیفہ بتایا جو تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہے۔ (مسند أحمد: 106/1)