قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: منقطع ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229] وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، فِي مَرِيضٍ طَلَّقَ: «لاَ أَرَى أَنْ تَرِثَ مَبْتُوتَتُهُ» وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «تَرِثُهُ» وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ، تَزَوَّجُ إِذَا انْقَضَتِ العِدَّةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «أَرَأَيْتَ إِنْ مَاتَ الزَّوْجُ الآخَرُ؟» فَرَجَعَ عَنْ ذَلِكَ

5259. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا العَجْلاَنِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا» قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةَ المُتَلاَعِنَيْنِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اس کے بوس یا دستور کے موافق عورت کو رکھ لینا چاہیئے یا اچھی طرح رخصت کردینا ۔ اور عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا اگر کسی بیمار شخص نے اپنی عورت کو طلاق بائن دے دی تو وہ اپنے خاوند کی وارث نہ ہوگی اور عامر شعبی نے کہا وارث ہوگی ( اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا ) اور ابن شبرمہ ( کوفہ کے قاضی ) نے شعبی سے کہا ، کیا وہ عورت عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ ابن شبرمہ نے کہا ، پھر اگر اس کا دوسرا خاوند بھی مر جائے ( تو وہ کیا دونوں کی وارث ہوگی ؟ ) اس پر شعبی نے اپنے فتوے سے رجوع کیا ۔سنت یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دینی منظور ہوں تو پہلے طہر میں ایک طلاق دے، پھر دوسرے طہر میں ایک طلاق دے، پھر تیسرے طہر میں ایک طلاق دے ۔ ان سے رجعت نہیں ہو سکتی اور وہ عورت بائنہ ہوگئی اور یہ خاوند اس عورت سے پھر نکاح نہیں کر سکتا جب تک وہ عورت دوسرے خاوند سے نکاح کرکے اس کے گھر نہ رہ لے اور پھر وہ دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق نہ دے دے اور وہ عورت طلاق کی عدت نہ گزارلے اور بہتر یہ ہے کہ ایک ہی طلاق پر اکتفاکرے۔ عدت گزر جانے کے بعد وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔ اب اگر کسی نے اپنی عورت کو ایک ہی مرتبہ میں تین طلاق دے دی یا ایک ہی طہر میں بدفعات ایک ایک کر کے تین طلاق دے دی تو اس میں علماءکا اختلاف ہے جمہور علماءوائمہ اربعہ کا تو یہ قول ہے کہ تین طلاق پڑجائیں گی لیکن ایسا کرنے والا ایک بدعت اور حرام کا مرتکب ہوگا اور امام بن حزم اور ایک جماعت اہلحدیث اور اہل بیت کا یہ قول ہے کہ ایک طلاق بھی نہیں پڑے گی اور اکثر اہلحدیث اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن اسحاق اور عطاءاورعکرمہ کا یہ قول ہے کہ ایک رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہویا غیر مدخولہ اور اسی کو اختیار کیا ہے ہمارے مشائخ اور ہمارے اماموں نے ۔ جیسے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام علامہ ابن قیم اور علامہ شوکانی اور محمد بن ابراہیم وزیر وغیرہ رحمہم اللہ علیہم نے۔ شوکانی نے کہا یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس باب میں ایک صریح حدیث ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کہ رکانہ نے اپنی عورت کو ایک مجلس میںتین طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک طلاق پڑی ہے اس سے رجوع کر لے اور حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں کو قائم رکھا مگر حدیث کے خلاف ہم کو نہ حضرت عمر ؓکی اتباع ضروری ہے نہ کسی اور کی اور خود امام مسلم حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ تین طلاق ایک بار دینا ایک ہی طلاق تھا، آنحضرت ﷺکے بعد اور ابوبکر وعمر ؓ کی خلافت میں بھی دو برس تک ۔ پھر حضرت عمر ؓ نے لوگوں کو ان کی جلد بازی کی سزا دینے کے لیے یہ حکم دیا کہ تینوں طلاق پڑ جائیں گی ۔ یہ حضرت عمر ؓ کا اجتہاد تھا جو حدیث کے خلاف قابل عمل نہیں ہو سکتا ۔ میں ( مولانا وحیدالزماں ) کہتا ہوں ، مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے خواہ حضرت عمرؓ کے فتوے پر عمل کر کے آنحضرتﷺ کی حدیث کو چھوڑ دو، خواہ حدیث پر عمل کرو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کا کچھ خیال نہ کرو۔ ہم توشق ثانی کو اختیار کرتے ہیں۔بجز ابروئے تو محراب دل حافظ نیستطاقت غیر تو در مذہب مانتواں کردتطلیقات ثلاثہ قرآن وحدیث کی روشنی میںمجلس واحد کی طلاق ثلاثہ خواہ بیک لفظ انت طالق ثلاثا دی جائیں، یا متعدد الفاظ انت طالق انت طالق انت طالق سے دی جائیں۔ شرع کے حکم کے مطابق ہر ایک صورت میںایک ہی طلاق واقع ہوگی اور شوہر کے لیے رجعت کا حق باقی رہے گا۔ اس لیے کہ مجموعی طور پر ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کا استعمال صریح معصیت اور کھلی ہوئی بدعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور امت محمد ﷺنے اس طریقہ کو شرعی اعتبار سے قطعا ً حرام قرار دیا ہے اور اس طلاق کو طلاق بدعی بتایا ہے یعنی ایسی طلاق جس کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ہے اورنہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ قرآن کریم میں جو طریقہ طلاق دینے کا بتایا گیا ہے وہ یہ کہ ہر طلاق تفریق کے ساتھ ہو یعنی ہر طلاق کا استعمال ہر طہر میں ہونا چاہیئے ، نہ کہ ایک ہی طہر میں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ( البقرۃ: 229 ) یعنی طلاق شرع جس کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے دو طہروں میں دی ہوئی دو طلاقیں ہیں پھر شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو اچھے طریقہ سے اس کو روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ اسے رخصت کردینا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین نے یہی بتایا ہے کہ یہاں طلاق دینے کا قاعدہ تفریق کے ساتھ رب العالمین نے بتایا ہے ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔ ان ھذہ الاٰیت دالۃ علی الامر بتفریق التطلیقات ( تفسیر کبیر، ص: 248یج: 2 ) یعنی یہ آیت کریمہ دلالت کررہی ہے اس حکم خداوندی پر کہ طلاق تفریق کے ساتھ دینی چاہیئے یعنی الگ الگ طہر میں، ایک طہر میں نہیں ۔ پھر آگے جمہور کا مسلک بتاتے ہوئے لکھتے ہیں۔ لو طلقھا اثنتین اور ثلاثا لا یقع الا واحدۃ وھذاالقول ھو الا قیس یعنی اگر کوئی شخص ایک ہی دفعہ دو طلاقیں دے دے یا تین طلاقیں دے تو ایک طلاق واقع ہوگی اور یہی قیاس کے زیادہ موافق بھی ہے یعنی عقلاءاور شرعاً یہی صحیح ہے۔یہی چیز علامہ ابوبکر جصاص رازی نے اپنے احکام القرآن میں لکھی ہے۔ ان الایۃ الطلاق مرتان ، تضمنت الامر بایقاع الاثنتین فی مرتین فمن اوقع الاثنتین فی مرۃ فھو مخالف لحکمھا ( احکام القرآن، ص: 280۔ ج: 1 ) یعنی دو طلاق دوبار ( دو طہر میں ) واقع کرنے کے امر کو شامل ہے ۔ پس جو کوئی دو طلاق ایک ہی دفعہ یعنی ایک ہی طہر پر واقع کرتا ہے وہ حکم خداوندی کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔ علامہ نسفی نے بھی تفسیر مدارک میں اسی امر کو واضح کیاہے کہ طلاق بالتفریق ہی صحیح ہے اور یہی فرمان خداوندی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ التطلیق الشرعی تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع ( تفسیر مدارک ، ص: 171۔ ج: 2 ) یعنی شرعی طلاق کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ ہر طہر میں تفریق کے ساتھ طلاق دی جائے ایک ہی دفعہ میں نہ دی جائے۔ تفسیر نیسابوری میں بھی اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔ التطلیق الشرعی تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال دفعۃ واحدۃ ۔ یعنی طلاق شرعی وہ طلاق ہے جو الگ الگ اپنے اپنے وقت یعنی طہر میں دی جائے یہ نہیں کہ سب کو اکٹھی کرکے ایک ہی دفعہ دے دی جائے ، یہ بالکل خلاف شرع ہے ۔ پھر آگے علامہ ابو زید دبوسی کے حوالے سے اصحاب رسول کا مسلک بتاتے ہیں وزعم ابو زید الدبوسی فی الاسرار ان ھذا قول عمروعثمان وعلی وابن عباس وابن عمر وعمران بن حصین وابی موسیٰ ازشعری وابی الدرداءوحذیفۃ رضی اللہ عنھم اجمعین ثم من ھولاءمن قال لو طلقھا اثنتین او ثلاثا لا یقع الا واحدۃ وھذا ھو الاقیس۔ یعنی ابو زید دبوسی نے الاسرار میں لکھا ہے کہ یہ قول حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر، حضرت عمران بن حصین ، حضرت ابو موسیٰ الاشعری ، حضرت ابو الدردائ، حضرت حذیفہؓ کا ہے، پھر ان میں بعض اصحاب وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو شخص بیک وقت دو طلاق یا تین طلاق دیتا ہے تو صرف ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے اور یہی قول قیاس کے سب سے زیادہ موافق ہے۔ چنانچہ یہی مطلب آیت کریمہ کا ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں، علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں ، علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے۔ جب قرآن کریم سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ طلاق شرعی وہی طلاق ہے جو ہر طہر میں الگ الگ دی جائے۔ ایک طہر میں جس قدر بھی طلاقیں دی جائیں گی وہ قرآن کریم کے مطابق ایک ہو ںگی کیونکہ ہر ایک طہر ایک طلاق سے زیادہ کا محل نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص چند طلاقوں کا استعمال ایک طہر میں کرتا ہے تو وہ صریح حرمت کا ارتکاب کرتا ہے یعنی قانون خداوندی کو توڑ تا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ایک ہی طلاق کا اعتبار ہوگا۔ چونکہ ایک طہر ایک طلاق سے زیادہ کا محل نہیں ہے ۔ اب احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی مزید تصریح اور توضیح ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ، آمین۔عن ابن عباس کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فی اناۃ فلو امضیناہ علیھم امضیناہ علیہم ( صحیح مسلم، ص: 477ج: 1 )یعنی ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ رسالت میں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے عہد خلافت میں اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے شروع دو سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمارہوتی تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے ایسے کام میں جلدی sبازی شروع کردی جس میں ان کو مہلت تھی پس اگر ہم ان پر تین طلاقوں کو نافذ کردیں ( تو مناسب ہے ) پس انہوں نے تین طلاقوں کا نافذ کر دیا۔پہلے اس حدیث کی صحت پر غور فرمالیں ، امام مسلم  نے اپنے مقدمہ مسلم شریف میں لکھا ہے۔ جو حدیث سند کے اعتبار سے اعلیٰ ترین مقام رکھتی ہے وہ حدیث میں باب کے شروع میں لاتا ہوں۔ پوری مسلم شریف میں یہی التزام کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ فاما القسم الاول فانا نتوضٰی ان تقدم الاخبار التی ھی اسلم من العیوب من غیرھا یعنی ہم نے قصد کیا ہے کہ ان احادیث کو پہلے روایت کریں جس کی سند تمام عیوب سے پاک اور صحیح سالم ہو دوسری احادیث سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ مذکورہ حدیث کو جو مسلم شریف کے عیوب سے پاک ہے۔ اسی وجہ سے باب کی پہلی حدیث ہے ویسے بھی اس کے جید الاسناد ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔ امام نووی نے بھی باب کی پہلی حدیث کے متعلق یہی تصریح کی ہے۔ الاول مارواہ الحفاظ المتقون۔ اول قسم کی سندوں سے وہی حدیث مروی ہے جن کے رواۃ حفاظ حدیث اور متقن رجال ہیں اور اسی کوباب کے شروع میں لاتے ہیں۔ حدیث مسلم کی صحت معلوم کرنے کے بعد اس حدیث میں دونوں حکم بیان کئے گئے ہیں۔غور فرمائیے ایک حکم شرعی دوسرا حکم سیاسی۔ پہلا حکم تو شرعی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد رسالت میں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے عہد خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال تک مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ ایک ہی ہوتی تھی اور اس میں ایک فرد کا بھی اختلاف نہیں تھا ۔ تمام کے تمام اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر اجماع تھا۔دوسرا حکم امضاءثلاث یعنی تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا ہے ۔ یہ حکم بالکل سیاسی اور تعزیری ہے اور اس کی علت بھی حدیث میں موجود ہے کہ لوگ عجلت کرنے لگے اس امر میں جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دی تو پھر سزا کے طور پر یہ حکم نافذ کر دیا اور یہی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جو بیک وقت تین طلاقیں استعمال کرتے تھے کوڑے لگواکر میاں بیوی میں تفریق کرادیتے تھے۔ چنانچہ محلیٰ میں علامہ ابن حزم نے بصراحت اس کو لکھا ہے۔ نیز اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبل اور بعد دونوں زمانہ کا الگ الگ تعامل بھی نظر آجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ عہد رسالت سے لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو تین سال تک باتفاق صحابہ کرام ایک طہر کی تین طلاق ایک ہی ہوتی تھی اور اسی پر اجماع صحابہ تھا۔ اختلاف در حقیقت شروع خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے تیسرے سال کے بعد ہوا۔ جب انہوں نے سیاسی اور تعزیری فرمان کا نفاذ فرمایا اور حکم دے دیا کہ جو کوئی ایک طہر میں تین طلاقیں دے گا اسے تین مان کر ہمیشہ کے لیے تفریق کرا دوں گا اور یہ حکم پوری طرح نافذ کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عہد خلافت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے صحابہ کرام کے فتوؤں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا جو اختلاف صحابہ کرام کے فتوؤں میں نظر آتا ہے وہ عہد خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں ہے۔چنانچہ محدثین ، مؤرخین کے علاوہ خود ائمہ احناف نے اس بات کو تسلیم کیا اور اپنی اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ چنانچہ علامہ قہستانی لکھتے ہیں ۔ اعلم ان فی الصدر الاول اذا ارسل الثلاث جملۃ لم یحکم الا بوقوع واحدۃ الٰی زمن عمر ثم حکم بوقوع الثلاث لکثرتہ بین الناس تھدیداً۔ یعنی صدر اول ( عہد رسالت ، عہد ابوبکر صدیقؓ ) میں حضرت عمرؓ کے زمانہ تک اگر کوئی شخص اکٹھا تین طلاقیں دیتا تووہ صرف ایک طلاق ہوتی تھی، پھر لوگ جب کثرت سے طلاقیں دینے لگے تو تہدیدا ً تین کو تین نافذ کردیا گیا۔یہی چیز طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ نے درمختار کے حاشیہ پر لکھی ہے۔انہ کا ن فی الصدرالاول اذا ارسل الثلاث جملۃ لم یحکم الابوقوع واحدۃ الی زمن عمر رضی اللہ عنہ ثم حکم بوقوع الثلاث سیاسۃ لکثرتہ بین الناس ( در مختار ، ص: 105 ج: 2 )یعنی صدر اول میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک جب کوئی شخص ایک دفعہ تین طلاق دے دیتا تو صرف ایک طلاق کے وقوع کا حکم کیا جاتا تھا، پھر لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کی تو سیاسۃ وتعزیراً تین طلاق کے وقوع کا حکم کیا جانے لگا۔( مجمع الانھرشرح ملتقی الابحر ) میں بعینہ یہی عبارت ہے۔ اسی طرح جامع الرموز وغیرہ میں بھی یہی صراحت موجود ہے۔ اسی چیز کو پورے شرح وبسط کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید علامہ ابن قیم نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ ، اغاثۃ اللھفان ، اعلام الموقعین۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی اختلاف شروع ہوا اور دونوں طرح کے فتاوے دیئے جانے لگے ۔ اب مسلمانوں کا تعامل اسی پر ہوناچاہیئے جس پر صدر اول میں تھا، یعنی ایک دفعہ کی دی ہوئی طلاق ثلاثہ ایک ہی مانی جائے ۔ جس طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ پوری تفصیل سے محدثین نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور یہ حدیث صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔طلاق رکانۃ امراتہ فی مجلس واحد فحزن علیھا حزناً شدیداً قال فسالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کیف طلقتھا ثلاثاً، قال طلقتھا ثلاثا فقال فی مجلس واحد؟ قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فراجعھا ان شئت قال فراجعھا ( مسند احمد ، ص: 165 ج: 1 )یعنی حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے کر سخت غمگین ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے۔ عرض کیا کہ حضور! میں نے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا ایک مجلس میں ہی ہیں؟ جواب دیا ہاں ایک ہی مجلس میں دی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ تین طلاقیں ایک مجلس کی ایک ہی ہوئیں، اگر تو چاہتا ہے تو بیوی سے رجوع کرلے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا۔ یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔چنانچہ فن حدیث کے امام الائمہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اسی مسند احمد کی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا تقبل تاویل الذی فی غیرہ۔ یعنی مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے میں یہ حدیث ایسی نص صریح ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں جو دوسروں میں کی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر کی یہ تصدیق صحت ان تمام شکوک وشبہات کو دور کر دیتی ہے جو بعض کم فہم لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حدیث بھی مسلک اہل حدیث کے لیے واضح اور روشن دلیل ہے اور طلاق ثلاثہ کے ایک طلاق ہونے کا بہترین ثبوت ہے۔ امام نسائی سنن نسائی میں ایک حدیث محمود بن لبید سے روایت کرتے ہیں۔ اس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قہر وغضب کا حال ملاحظہ ہو۔ عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امراتہ ثلاثا وتطلیقات جمیعا فقام غضباً ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظھرکم قام رجل وقال یا رسول اللہ الا نقتل ( سنن نسائی ، ص: 538 ) محمود بن لبید سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ۔ پس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت غصہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے حالانکہ میں تم مےں موجود ہوں۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا اس کو قتل نہ کردوں۔اس حدیث کے مضمون سے یہ صاف ظاہر ہے کہ مجلس کی تین طلاقیں شریعت کی نگاہ میں ایسا شدید جرم ہے کہ خدا کے رسول سنتے ہی قہر مان ہو گئے اور ایسے فعل کے مرتکب کو صحابہ قتل کے لیے آمادہ ہو گئے۔ بعض حضرات نے اس حدیث پر یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس حدیث میں قہر وغضب کا ذکر تو ضرور ہے مگر ایک طلاق ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تین طلاقیں ایک ہوئیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں تین ہی آپ نے مانی تھیں۔ یہ شبہ بالکل غلط ہے۔اس لیے کہ جب یہ پہلے معلوم ہو چکا کہ عہد رسالت میں ایک دفعہ کی دی ہوئی طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں اور رجعت کا حق باقی رہتا تھا تو پھر یہ شبہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ عام قاعدہ کے مطابق یہ بھی طلاق رجعی ہوئی ۔ اس لیے کہ ایک دفعہ کی دی ہوئی تین طلاقیں ہمیشہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مانی ہیں۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں مذکور ہو چکا ہے اور جیسا کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرچکا کہ آپ نے مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ کے بارے میں فرمایا فانما تلک واحدۃ فراجعھا ان شئت یعنی ایک وقت کی دی ہوئی طلاق ثلاثہ ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو بیوی سے رجوع کر لو۔ جناب رسول اللہ ﷺکا یہ ایسا جنرل حکم ہے کہ اس کے بعد تین طلاقوں کے تین ہونے کا شبہ تک نہیں رہ جاتا ۔ صحت کے اعتبار سے بھی یہ حدیث صحیح ہے۔ چنانچہ ابن حجر  نے اس حدیث سے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے ورواتہ موثوقون اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔علامہ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں ثابت کیا ہے کہ مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر فتاویٰ ہمےشہ علماءنے دیئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہی، فافتی بہ عبداللہ بن عباس والزبیر بن عوام وعبدالرحمن بن عوف وعلی وابن مسعود واما التابعون فافتی بہ عکرمۃ وافتی بہ طاؤس واماالتابعون فافتی بہ محمد بن اسحاق وغیرہ وافتی بہ خلاس بن عمرو والحارث عکلی وامااتباع تابعی التابعین فافتی بہ داود بن علی واکثر اصحابہ وافتی بہ بعض اصحاب مالک وافتی بہ بعض الحنفیۃ وافتی بہ بعض اصحاب احمد۔ ( اعلام الموقعین، ص: 26 ) یعنی صحابہ کرام میں عبداللہ بن عباس ، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ تابعین میں امام طاؤس ، امام عکرمہ نے بھی اسی کا فتویٰ دیا ہے اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق وغیرہ نے بھی یہی فتویٰ دیا اور خلاس بن عمرو اور حارث عکلی نے اسی کا فتویٰ دیا ہے اور تبع تابعین کے اتباع میں سے داؤد بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے بھی اسی کا فتویٰ دیا ہے اور بعض مالکیہ اور بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ نے بھی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی اس تصریح سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام کے بعد بھی قرناً بعد قرن اصحاب علم و فضل تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیتے آئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں نے صدر اول کے فتویٰ پر عمل کیا، انہوں نے تین طلاقوں کو ایک بتایا اور جن لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سیاسی فیصلہ کو مانا، انہوں نے تین کو تین مانا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بھی دونوں طرح کا حدیث میں منقول ہے مگر تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ خود حضرت سیدنا محمد رسول اللہﷺکا ہے اس لیے عامل بالکتاب والسنۃکا یہی مسلک ہے اور یہی ان کا مذہب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سیاسی فیصلہ امضاءثلاث کو عامل بالکتان والسنۃ نہیں مانتے جس طرح بہت سے صحابہ وتابعین وتبع تابعین رحمہم اللہ نے نہیں مانا۔علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ فیہ خلاف ذھب طاؤس ومحمد بن اسحاق والحجاج بن ارطاط والنخعی وابن مقاتل والظاھر یۃ الی ان الرجل طلق امراتہ معافقد وقعت علیھا واحدۃ ( عمدۃ القاری ، ج: 9 ص 537 ) طلاق ثلاثہ کے وقوع میں اختلاف ہے ۔ امام طاؤس اور محمد بن اسحاق وحجاج بن ارطاط وامام نخعی رحمہم اللہ جو استاذ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور محمد مقاتل جو شاگرد امام ابو حنیفہ ہیں اور ظاہر یہ سب اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں بیک وقت دے دے تو اس پر ایک ہی واقع ہوگی، تین نہیں ہوں گی۔ جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔ خلاصہ یہی ہے کہ ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ دلائل کے اعتبار سے اور قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ علیہ وسلم کے اصول سے ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں اور اسی پر عمل جمہور صحابہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی تین سال تک رہا ہے۔ بعد مےں حضرت عمر ؓ کے سیاسی فیصلہ سے اختلاف چلا اور آج تک چلا آرہا ہے اور شاید قیامت تک رہے گا۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے اغاثۃ اللھفان میں لکھا ہے ۔ النزاع فی ھذہ المسئلۃ ثابت عن عھد صحابۃ الی وقتنا ھذا یعنی وقوعہ ثلاثہ کے مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ہمارے اس زمانہ تک نزاع چلا آرہا ہے ۔ وقت کا شدید زمانے تک نزاع چلا آرہا ہے وقت کا شدےدتقاضا ہے کہ آج عہد رسالت ہی کے تعامل پر امت متفق ہو جائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو قرآن وحدیث سے ثابت شدہ مسئلہ پر عمل کی توفیق بخشے اور حق وباطل میں تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔ ( از قلم ۔ ۔ حضرت مولانا عبدالصمد صاحب رحمانی صدر مدرس مدرسہ سبل السلام دہلی۔

5259.

سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی انصاری ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر سکتا ہے، اس صورت میں تم اس (شوہر) کو بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ (شوہر) کیا کرے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مئسلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر بتاؤ، چنانچہ سیدنا عاصم ؓ نے جب یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور انہیں معیوب قرار دیا جو کہ سیدنا عاصم ؓ سے سنی تھے۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر آئے تو حضرت عویمر ؓ نے آ کر ان سے پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا ہے؟ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: تم نے تو مجھے آفت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو سوال تم نے پوچھا وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار گزرا۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھے بغیر نہیں رہوں گا چنانچہ وہ روانہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت آپ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔ سیدنا عویمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس صورت میں لوگ اسے بھی قتل کر دیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ ﷺ فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں وحی نازل فرمائی ہے۔ اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ۔“ سیدنا سہل ؓ کا بیان ہے کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، میں اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو حضرت عویمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر (اب بھی) میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (اس کا مطلب یہ ہے کہ) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے قبل ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالیں ابن شہاب نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لیے یہی طریقہ جاری ہو گیا۔