تشریح:
(1) (أَرِيْكَة) لغت میں اس چارپائی یا تخت کو کہتے ہیں جسے مزین کر کے رکھا گیا ہو۔ اہل عرب نئی دلہن کے لیے پردوں وغیرہ سے مزین کر کے جو چارپائی تیار کرتے تھے، اسے بھی (أَرِيْكَة) کہتے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ حدیث کا انکار کرنا، بھرے پیٹ والے نازونعمت کے شیدائیوں کا کام ہے جو آراستہ پلنگ یا تخت پر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
(2) مولانا وحید الزمان خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ پیش گوئی عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، جو برصغیر پاک و ہند میں انکار حدیث کا فتنہ کھڑا کرنے والوں کا ایک سرغنہ تھا۔ مولانا فرماتے ہیں: اس حدیث میں منکرین حدیث کے بانی عبداللہ چکڑالوی کی طرف بھی اشارات پائے جاتے ہیں، جو لفظ بلفظ پورے ہوئے۔ جن لوگوں نے عبداللہ چکڑالوی کو شیخ چٹو کے طویلے میں پلنگ پر تکیہ لگائے دیکھا ہے وہ آج بھی عینی شہادت دے سکتے ہیں کہ یہ حدیث لفظ بلفظ پوری ہو گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مضمون وحی ہوتا تھا، ورنہ آپ کی پیش گوئی لفظ بلفظ پوری نہ ہوتی۔ (ترجمہ سنن ابن ماجہ از وحید الزمان خاں۔ حاشیہ حدیث ہذا)
(3) جس طرح قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اور قرآن مجید میں منع کیے ہوئے کاموں کا ارتکاب حرام ہے، اسی طرح حدیث سے بھی فرضیت اور حرمت ثابت ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن مجید میں بعض خواتین سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، مثلا ماں کی بہن، بیٹی وغیرہ، جبکہ حدیث سے خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام ثابت ہوتا ہے۔ ان دونوں کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح نماز کے لیے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیے جانے کی آیات نازل ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، کیونکہ اس وقت یوں ہی نماز ادا کرنا فرض تھا، حالانکہ یہ حکم قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا تھا۔
الحکم التفصیلی:
وعن المقدام بن معدي كرب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : " ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه وإن ما حرم رسول الله كما حرم الله ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي ولا كل ذي ناب من السبع ولا لقطة معاهد إلا أن يستغني عنها صاحبها ومن نزل بقوم فعليهم أن يقروه فإن لم يقروه فله أن يعقبهم بمثل قراه " رواه أبو داود وروى الدارمي نحوه وكذا ابن ماجه إلى قوله : " كما حرم الله "