تشریح:
1۔ خطبے کی جملہ احادیث سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ اس عمل میں مقصود مطلوب سامعین کو وعظ وتذکیر ہے۔ اس لئے اگر سامعین عجمی ہوں عربی نہ سمجھتے ہوں۔ تو انھیں ان کی زبان میں وعظ کیا جائے۔ اس پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ پھر تو نماز میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ خطبہ عبارت کےساتھ ساتھ وعظ ونصیحت بھی ہے۔ جبکہ نماز خالص عبادت ہے۔ اس میں ذکر اور قرآن کی تلاوت متعین ہے۔ ذکر اور تذکیر میں فرق ہے۔ جیسے کہ قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں ہے۔ وہ محض ترجمانی ہے۔ اس لئے نماز کو خطبے پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ عجوبہ یہ ہے کہ ان حضرات نے نماز تو۔۔۔ ایک روایت کے مطابق۔۔۔ عجمی زبان میں جائز کردی ہے۔ مگر خطبے کےلئے یہ گنجائش نہ نکال سکے۔
2۔ اصحاب الحدیث کے خطبات جمعہ وعیدین بحمد اللہ سنت کے عین مطابق نبوی خطبات کے عربی الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات اور اکثر احادیث بھی عربی میں پڑھی جاتی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ سامعین کی زبان میں معانی ومفاہیم بیان کیے جاتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن على شرط مسلم. وقد أخرجه باللفظين اللذين قبله كما سبق) . إسناده: حدثنا أبو كامل: ثنا أبو عوانة عن سماك بن حرب عن جابر بن سمرة.
قلت: وهذا إسناد حسن على شرط مسلم، وليس بصحيح؛ لما ذكرته في الرواية الأولى قبل حديث. وأبو كامل: اسمه فُضَيْل بن حسين الجَحْدَرِي. والحديث أخرجه أحمد (5/90 و 97) من طريقين آخرين عن أبي عوانة... به؛ وتمام الحديث عنده: ثم يقوم فيخطب خطبة أخرى على منبره، فمن حدثك أنه رآه يخطب قاعداً؛ فلا تصدقْهُ!