تشریح:
یہ اس صورت میں ہوتا جب ذوال سے پہلے کوچ نہ کیا ہوتا۔ اگر زوال سے پہلے ہی سفر میں چل پڑتے۔ تو ظہر کو موخر کر کے عصر کے ساتھ اکھٹا کر کے پڑھتے تھے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نصف النہار (ذوال) سے قبل ہی نبی کریمﷺ ظہر کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذوال کے ہوتے ہی فورا ظہر کی نماز ادا کرلیتے اور پھر سفرشروع کرتے کیونکہ ذوال سے قبل تو ظہر کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط ( كذا في أصل الشيخ- رحمه الله- لم يكمل ما أراد قوله. (الناشر) . (4/364) إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى عن شعبة: حدثني حمزة العائذي- رجل من بني ضَبَّةَ- سمعت أنس بن مالك يقول...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح ؛ وحمزة: هو ابن عمرو. والحديث أخرجه أحمد (3/120 و 129) ، وكذا الطحاوي (1/109) من طرق أخرى عن شعبة... به.