تشریح:
فوائد ومسائل: (1) نبیﷺ کا قیام اللیل دو دو رکعات اور چار چار رکعات دونوں طرح ثابت ہے۔ تاہم آپ کا اکثر معمول دودورکعت پڑھنے کا تھا۔
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خصوصیت سے یہ بتانا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، ان لوگوں پر تعرض ہے، جنہوں نے رمضان میں قیام اللیل کی رکعات میں اضافہ کرنا شروع کردیا تھا، مگر انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ کا قیام، رکوع اور سجود بھی بہت لمبا ہوتا تھا۔ اس لیے عاملین بالسنہ پر لازم ہے کہ دونوں امور کا اہتمام کیا کریں، عدد کا بھی اورکیفیت کا بھی۔
(3) رسول اللہﷺ کی خصوصیت تھی کہ سونے سے بےوضو نہیں ہوتے تھے۔ اور نبی کا دل کسی بھی وقت غافل نہیں ہوتا کیونکہ وہ مہبط وحی ہوتا ہے۔ اور یہ سوال کہ آپ اور آپ کے صحابہ سفر میں فجر کی نماز کے وقت سوتے رہ گئے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلوع فجر کا تعلق آنکھ کے دیکھنے سے ہے نہ کہ دل کی معرفت سے۔
(4) حضرت عائشہ رضی للہ عنہا کے سوال جواب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عام لوگوں کو وتروں سے پہلے نہیں سونا چاہیے کہ کہیں رہ نہ جائیں اور رسول اللہﷺ کا معاملہ خاص ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وإسناد البخاري إسناد المصنف ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه أخبره: أنه سأل...
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطا (1/120/1) ... بهذا الإسناد. وأخرجه البخاري (2/395) عنه... بإسناد المصنف هذا. وأخرجه أيضا (1/500) ، ومسلم (2/166) ، والنسائي (1/248) ، والطحاوي في المشكل (4/353) ، والبيهقي (3/6) ، وأحمد (6/36 و 73 و 104) من طرق عن مالك... به. وقال الترمذي (رقم 439) : حديث حسن صحيح . ولجملة النوم منه شاهد من حديث الحسن... مرسلاً. عزاه السيوطي في الجامع لابن سعد! ولم أجده فيه!