تشریح:
1: تعظیمی سجدہ مشرکین کا شعار ہے۔
2: قبر پر سجدہ کرنا یا کسی زندہ مردہ کو سجدہ کرنا، فطرت سلیمہ کے بھی خلاف ہے کجا یہ کہ کوئی کلمہ گو اس کا تصورکرے۔
3: بیویوں پر واجب ہے کہ اہنے خاوندوں کی حد درجہ عزت وتوقیر اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں مگر ظاہر ہے کہ شرعی حدود وقیود کی پا بندی لازمی ہے۔
4: سجدہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کا حق اور اسی کے ساتھ خاص ہے، دوسرے کسی شخص کے لئے سجدہ قطعا روا اور جائز نہیں ہے۔
5: مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے، قرآن مقدس میں بھی اس کی تصریح موجود ہے۔
6: یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول ﷺکے ساتھ کمال محبت کی واضح دلیل ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح؛ إلا جملة القبر، وقال الحاكم: صحيح الإسناد ، ووافقه الذهبي. والجملة الأخيرة منه قد رويت عن جمع من الصحابة؛ منهم أبو هريرة، وحسنه الترمذي، وصححه ابن حبان والحاكم، وصححه هو والذهبي من حديث معاذ، وابن حبان من حديث ابن أبي أوفى، وفيه أن القصة وقعت لمعاذ حين قدم من الشام، وإسناده حسن. وأخرجه الحاكم عن معاذ نفسه، وصححه، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا عمرو بن عون: أخبرنا إسحاق بن يوسف عن شَرِيك عن حُصَيْن عن الشعبي عن قيس بن سعد.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير شريك- وهو ابن عبد الله القاضي النَّخَعِيَ-؛ قال المنذري: وقد تكلم فيه غير واحد، وأخرج له مسلم في المتابعات .
قلت: وقد توبع كما يأتي؛ فحديثه حسن، وقد صححه من سأذكره. والحديث أخرجه الحاكم (2/187) من طريق محمد بن المسيب: ثنا عمرو ابن عون... به. وقال: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! وأخرجه البيهقي (7/291) من طريق عبد الرحمن بن شريك النخعي: حدثني أبي... به.
قلت ، وشريك فيه ضعف من قبل حفظه، ولكنه لم ينفرد به؛ فقد رواه جمع من الصحابة، منهم من ذكرنا آنفاً، وأحاديثهم مخرجة مع سياق متونها في الإرواء (1998) . ومن الملاحظ أن جملة القبر لم ترد في شيء منها؛ فهي منكرة؛ إلا إن وجد لها شاهد.