قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابٌ فِي عِدَّةِ الْحَامِلِ)

حکم : صحيح م خ معلقا بتمامه وموصولا مختصرا 

2306. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ, يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا، وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ اسْتَفْتَتْهُ؟ فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، يُخْبِرُهُ: أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ -وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَهُوَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا-، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا, تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ -رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ-، فَقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً, لَعَلَّكِ تَرْتَجِينَ النِّكَاحَ؟! إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ، حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَتْ سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ, جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي: >قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ، وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا، حَتَّى تَطْهُرَ.

مترجم:

2306.

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کا بیان ہے کہ اس کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ‬ ؓ ک‬ے پاس جائے اور اس سے اس کا قصہ دریافت کرے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا فرمایا تھا، جب اس نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تھا؟ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے، عبداللہ بن عتبہ کو لکھ بھیجا کہ سبیعہ نے بتایا کہ وہ سعد بن خولہ کی زوجیت میں تھی جو کہ قبیلہ بنی عامر بن لؤی میں سے تھے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور حجۃ الوداع کے موقع پر ان کی وفات ہوئی تھی اور ان دنوں وہ حمل سے تھی۔ ان کی وفات کے بعد چند ہی روز گزرے تھے کہ بچے کی ولادت ہو گئی۔ جب ایام نفاس سے پاک ہوئی تو نکاح کا پیغام لانے والوں کے لیے انہوں نے زیب و زینت شروع کر دی۔ چنانچہ بنو عبدالدار کا ایک شخص ابوسنابل بن بعکک اس کے پاس آیا اور اس سے کہا: کیا وجہ ہے تو نے زیب و زینت کر رکھی ہے، شاید تو نکاح کرنا چاہتی ہے؟ اللہ کی قسم! تو اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتی جب تک چار ماہ دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ نے کہا: جب اس نے مجھے یہ کہا تو شام کو میں نے اپنے کپڑے لپیٹے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئی اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب ولادت ہو گئی ہے تو، تو حلال ہے۔“ اور آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اگر میں چاہوں تو نکاح کر سکتی ہوں۔“ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: ”وضع حمل کے بعد میں ایسی عورت کے نکاح میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ہوں خواہ خون کے ایام ہی ہوں، الا یہ کہ شوہر طہارت سے پہلے اس کے قریب نہ ہو۔