تشریح:
اجتہادی امور میں خطا معاف ہے۔ عید یا حج کے موقع پر چاند نظر نہ آیا ہو اور لوگ مہینے کے تیس دن پورے کر لیں اور بعد میں پتہ چلے کہ چاند تو انتیس کا تھا تو ان پر روزے اور وقوف عرفات و قربانی کا کوئی عیب نہیں۔ ایسے ہی اگر کئی فساق اکٹھے ہو کر انتیس ہی کو چاند ہونے کا مشہود کر دیں اور مسلمان ان کے بھرے میں آ کر افطار کر لیں یا وقوف عرفات و قربانی ہو جائے تو اس میں عامة المسلمین پر کوئی عیب نہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بعض بے دینوں نے توبہ کرنے کے بعد اظہار کیا کہ ہم چند لوگ مل کر چاند ہونے کا دعویٰ کر دیتے تھے، شہادتیں اور قسمیں بھی کھا لیتے تھے اور عید کروا دیتے تھے۔ العیاذباللہ۔ ایسی صورت میں ازالہ نا ممکن ہو تو خطا معاف ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا محمد بن عبيد: ثنا حماد في حديث أيوب عن محمد بن المنكدر عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم، لكنه منقطع؛ لأن محمد بن المنكدر لم يسمع من أبي هريرة، كما قال البزار وغيره. وقد اختلف عليه وعلى أيوب في إسناده؛ إلا أن له إسناداً آخر عن أبي هريرة، وهو حسن، كما بينته في الإرواء (905) .