مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2470.
سیدنا ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال آپ ﷺ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو اگلے سال آپ ﷺ نے بیس رات تک اعتکاف فرمایا۔
تشریح:
نفل اعمال کی قضا واجب تو نہیں ہے، مگر ادا کرنے میں بہت اجرو فضیلت ہے۔ بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وصححه ابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذهبي. ورواه البخاري وابن خزيمة عن أبي هريرة. وصححه الترمذي وابن خزيمة وابن حبان والحاكم من حديث أنس) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أخبرنا ثابت عن أبي رافع عن أُبي بن كعب.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه. والحديث أخرجه ابن ماجه (1/537- 538) ، وابن خزيمة (2225) ، وابن حبان (917) ، والطيالسي (953- ترتيبه) ، والنسائي في الكبرى (ق 71/2) ، والبيهقي (4/314) ، وأحمد (5/141) من طرق أخرى عن حماد بن سلمة... به. وأخرجه الحاكم (1/439) ، وقال: صحيح ، ووافقه الذهبي. وله شاهد من حديث أبي هريرة: أخرجه البخاري (4/229) ، والدارمي (2/27) ، وابن ماجه (1/537) ، وابن خزيمة (2221) ، والبيهقي. وسيأتي برقم (2130) . ومن حديث أنس: عند الترمذي (803) ، وصححه ابن خزيمة (2226 و 2227) ، وابن حبان (918) ، والحاكم- وقال: صحيح على شرط الشيخين -، والبيهقي، وأحمد (3/104) . وسنده ثلاثي.
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
سیدنا ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال آپ ﷺ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو اگلے سال آپ ﷺ نے بیس رات تک اعتکاف فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
نفل اعمال کی قضا واجب تو نہیں ہے، مگر ادا کرنے میں بہت اجرو فضیلت ہے۔ بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال (کسی وجہ سے) اعتکاف نہیں کر سکے تو اگلے سال آپ ﷺ نے بیس رات کا اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ubayy ibn Ka'b (RA): The Prophet (ﷺ) used to observe i'tikaf during the last ten days of Ramadan. One year he did not observe i'tikaf. When the next year came, he observed i'tikaf for twenty nights (i.e. days).