Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding The Virtue Of Keeping Watch In The Cause Of Allah, The Mighty And Sublime)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2508.
سیدنا سہل بن حنظلیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ (ہم) لوگ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے اور بہت لمبی مسافت طے کی حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا۔ سو میں نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر تھا کہ ایک گھوڑ سوار آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے آگے آگے چلتا رہا حتیٰ کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھ گیا تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے سب لوگ اپنی عورتوں، چوپاؤں اور بکریوں سمیت حنین کی طرف جمع ہو رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا: ”کل ان شاءاللہ یہ سب مسلمانوں کی غنیمت ہو گا۔“ پھر فرمایا: ”آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟“ سیدنا انس بن ابی مرثد غنوی ؓ نے کہا: میں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تو سوار ہو جاؤ۔“ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا: ”اس گھاٹی کی طرف چلے جاؤ حتیٰ کہ اس کے اوپر چڑھ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ رات میں ہم تمہاری طرف سے دھوکہ کھا جائیں۔“ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دریافت فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سوار کو دیکھا ہے؟“ صحابہ نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم نے اس کو نہیں دیکھا ہے۔ پھر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے لگے اور اس دوران میں آپ گھاٹی کی طرف بھی دیکھتے رہے حتیٰ کہ جب نماز مکمل کر لی اور سلام پھیر لیا تو فرمایا: ”خوشخبری ہو، تمہارا سوار آ گیا ہے۔“ پس ہم بھی درختوں میں سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، تو وہ سامنے آ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کھڑا ہوا۔ اس نے سلام کیا اور کہا: میں (آپ کے ہاں سے) روانہ ہوا حتیٰ کہ اس گھاٹی کے اوپر چڑھ گیا جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم فرمایا تھا، جب صبح ہوئی تو میں نے دونوں گھاٹیوں میں دیکھا تو مجھے کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تم رات کو (گھوڑے سے) اترے بھی تھے؟“ اس نے کہا: نہیں، صرف نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے لیے ہی اترا ہوں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تم نے اپنے لیے لازم کر لی (جنت) تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو کوئی مؤاخذہ نہیں۔“
تشریح:
1۔ جہادی مہموں اور دیگر اہم مواقع پر پہرہ داری کا انتظام حسب ضرورت مشروع ومسنون بلکہ واجب ہے۔ اور توکل کے خلاف نہیں۔ 2۔ نماز کے دوران میں بلاوجہ التفات ممنوع ہے۔ مگر اہم ضرورت کے پیش نظر مباح ہے۔ مگر خیال رہے کہ منہ پھیر کر نہ دیکھا جائے۔ 3۔ صحابی رسول ﷺ نے فرمان رسولﷺ کے ظاہر الفاظ پر اس شدت سے تعمیل کی کہ ساری رات گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی۔ 4۔ نبی کریمﷺ کا یہ فرمانا کہ تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو مواخذہ نہیں، ان کے اس عمل کی قبولیت کی بشارت تھی۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہیں اعمال تکلیفہ سے آزادی کا پروانہ دے دیا گیا تھا۔ بلکہ اس میں ان کی بخشش کی خوش خبری تھی۔ جس کی بنا پر یہ لوگ اور بھی زیادہ متقی عامل اور محنت کش ہوجاتے تھے۔ جیسے کہ خود رسول اللہ ﷺنے اپنے بارے میں فرمایا تھا۔ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1130۔ و صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 2819) 5۔ جہاد میں پہرہ داری کے ایک آسان عمل کا یہ اجر ہے تو قتال معرکہ آرائی کے فضائل کس قدر زیادہ ہوں گے۔ 6۔ مجاہدین معرکی طرح فکرو عمل کے میدان میں بھی علمائے حق پر لازم ہے۔ کہ دنیا میں پھیلنے والی اسلامی تحریکوں پر گہری نظر رکھیں۔ جو کہ مسلمانوں اور ان کے معاشرے میں نقب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتیں۔ اور ان کا جواب بھر پور علمی وفکری اسلوب میں دینا واجب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح) . إسناده: حدثنا أبو توبة: ثنا معاوية- يعني: ابن سَلام- عن زيد- يعني: ابن سَلام- أنه سمع أبا سلام قال: حدثني السَّلُولِي أبو كبشة أنه حدثه سهل ابن الحنظلية.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، كما تقدم برقم (850) . والحديث أخرجه النسائي في الكبرى - كما في تحفة الأشراف (4/95) - والبيهقي (9/149) من طريقين آخرين عن أبي توبة... به. وتابعه مروان بن محمد: ثنا معاوية بن سلام ... به.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا سہل بن حنظلیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ (ہم) لوگ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے اور بہت لمبی مسافت طے کی حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا۔ سو میں نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر تھا کہ ایک گھوڑ سوار آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے آگے آگے چلتا رہا حتیٰ کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھ گیا تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے سب لوگ اپنی عورتوں، چوپاؤں اور بکریوں سمیت حنین کی طرف جمع ہو رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا: ”کل ان شاءاللہ یہ سب مسلمانوں کی غنیمت ہو گا۔“ پھر فرمایا: ”آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟“ سیدنا انس بن ابی مرثد غنوی ؓ نے کہا: میں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تو سوار ہو جاؤ۔“ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا: ”اس گھاٹی کی طرف چلے جاؤ حتیٰ کہ اس کے اوپر چڑھ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ رات میں ہم تمہاری طرف سے دھوکہ کھا جائیں۔“ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دریافت فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سوار کو دیکھا ہے؟“ صحابہ نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم نے اس کو نہیں دیکھا ہے۔ پھر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے لگے اور اس دوران میں آپ گھاٹی کی طرف بھی دیکھتے رہے حتیٰ کہ جب نماز مکمل کر لی اور سلام پھیر لیا تو فرمایا: ”خوشخبری ہو، تمہارا سوار آ گیا ہے۔“ پس ہم بھی درختوں میں سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، تو وہ سامنے آ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کھڑا ہوا۔ اس نے سلام کیا اور کہا: میں (آپ کے ہاں سے) روانہ ہوا حتیٰ کہ اس گھاٹی کے اوپر چڑھ گیا جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم فرمایا تھا، جب صبح ہوئی تو میں نے دونوں گھاٹیوں میں دیکھا تو مجھے کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تم رات کو (گھوڑے سے) اترے بھی تھے؟“ اس نے کہا: نہیں، صرف نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے لیے ہی اترا ہوں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تم نے اپنے لیے لازم کر لی (جنت) تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو کوئی مؤاخذہ نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ جہادی مہموں اور دیگر اہم مواقع پر پہرہ داری کا انتظام حسب ضرورت مشروع ومسنون بلکہ واجب ہے۔ اور توکل کے خلاف نہیں۔ 2۔ نماز کے دوران میں بلاوجہ التفات ممنوع ہے۔ مگر اہم ضرورت کے پیش نظر مباح ہے۔ مگر خیال رہے کہ منہ پھیر کر نہ دیکھا جائے۔ 3۔ صحابی رسول ﷺ نے فرمان رسولﷺ کے ظاہر الفاظ پر اس شدت سے تعمیل کی کہ ساری رات گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی۔ 4۔ نبی کریمﷺ کا یہ فرمانا کہ تم اس کے بعد اور کوئی عمل نہ بھی کرو تو مواخذہ نہیں، ان کے اس عمل کی قبولیت کی بشارت تھی۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہیں اعمال تکلیفہ سے آزادی کا پروانہ دے دیا گیا تھا۔ بلکہ اس میں ان کی بخشش کی خوش خبری تھی۔ جس کی بنا پر یہ لوگ اور بھی زیادہ متقی عامل اور محنت کش ہوجاتے تھے۔ جیسے کہ خود رسول اللہ ﷺنے اپنے بارے میں فرمایا تھا۔ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1130۔ و صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 2819) 5۔ جہاد میں پہرہ داری کے ایک آسان عمل کا یہ اجر ہے تو قتال معرکہ آرائی کے فضائل کس قدر زیادہ ہوں گے۔ 6۔ مجاہدین معرکی طرح فکرو عمل کے میدان میں بھی علمائے حق پر لازم ہے۔ کہ دنیا میں پھیلنے والی اسلامی تحریکوں پر گہری نظر رکھیں۔ جو کہ مسلمانوں اور ان کے معاشرے میں نقب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتیں۔ اور ان کا جواب بھر پور علمی وفکری اسلوب میں دینا واجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن حنظلیہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے دن چلے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ شام ہو گئی، میں نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اتنے میں ایک سوار نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں آپ لوگوں کے آگے گیا، یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ سب کے سب اپنی عورتوں، چوپایوں اور بکریوں کے ساتھ بھاری تعداد میں مقام حنین میں جمع ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: ”ان شاءاللہ یہ سب کل ہم مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے۔“ پھر فرمایا: ”رات میں ہماری پہرہ داری کون کرے گا؟“ انس بن ابومرثد غنوی ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میں کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو سوار ہو جاؤ۔“ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس گھاٹی میں جاؤ یہاں تک کہ اس کی بلندی پہ پہنچ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ ہم تمہاری وجہ سے آج کی رات دھوکہ کھا جائیں۔“ جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر آئے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا: ”تم نے اپنے سوار کو دیکھا؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے نہیں دیکھا، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے لیکن دوران نماز کنکھیوں سے گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے اور سلام پھیرا تو فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! تمہارا سوار آ گیا۔“ ہم درختوں کے درمیان سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، یکایک وہی سوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور سلام کیا اور کہنے لگا: میں گھاٹی کے بالائی حصہ پہ چلا گیا تھا جہاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا تو جب صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں دکھائی پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم آج رات گھوڑے سے اترے تھے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، البتہ نماز پڑھنے کے لیے یا قضائے حاجت کے لیے اترا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم نے اپنے لیے جنت کو واجب کر لیا، اب اگر اس کے بعد تم عمل نہ کرو تو تمہیں کچھ نقصان نہ ہو گا۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی تمہارے لئے تمہارا یہی عمل جنت میں داخل ہونے کے لئے کافی ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl ibn al-Hanzaliyyah (RA): On the day of Hunayn we travelled with the Apostle of Allah (ﷺ) and we journeyed for a long time until the evening came. I attended the prayer along with the Apostle of Allah (ﷺ). A horseman came and said: Apostle of Allah (ﷺ), I went before you and climbed a certain mountain where saw Hawazin all together with their women, cattle, and sheep, having gathered at Hunayn. The Apostle of Allah (ﷺ) smiled and said: That will be the booty of the Muslims tomorrow if Allah wills. He then asked: Who will be on guard tonight? Anas ibn Abu Marthad al-Ghanawi said: I shall, Apostle of Allah (ﷺ). He said: Then mount your horse. He then mounted his horse, and came to the Apostle of Allah (ﷺ). The Apostle of Allah (ﷺ) said to him: Go forward to this ravine till you get to the top of it. We should not be exposed to danger from your side. In the morning the Apostle (ﷺ) of of Allah (ﷺ) came out to his place of prayer, and offered two rak'ahs. He then said: Have you seen any sign of your horseman? They said: We have not, Apostle of Allah (ﷺ). The announcement of the time for prayer was then made, and while the Apostle of Allah (ﷺ) was saying the prayer, he began to glance towards the ravine. When he finished his prayer and uttered salutation, he said: Cheer up, for your horseman has come. We therefore began to look between the trees in the ravine, and sure enough he had come. He stood beside the Apostle of Allah (ﷺ), saluted him and said: I continued till I reached the top of this ravine where the Apostle of Allah (ﷺ) commanded me, and in the morning I looked down into both ravines but saw no one. The Apostle of Allah (ﷺ) asked him: Did you dismount during the night? He replied: No, except to pray or to relieve myself. The Apostle of Allah (ﷺ) said: You have ensured your entry to (Paradise). No blame will be attached to you supposing you do not work after it.