تشریح:
1۔ جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔ جیسے کہ (باب في السریة تخفق) حدیث 2497) میں گزرا ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔ اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔ اور ان میں برکت نہ دے تو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔
3۔ مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔ کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔
2۔ قیامت ازحد قریب ہے۔ لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال الحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: حدثنا أسَدُ بن موسى: حدثنا معاوية بن صالح: حدثني ضَمْرَةُ أن ابن زُغْبٍ الإيادي حدثه قال... قال أبو داود: عبد الله بن حوالة حمصي .
قلت: إسناده صحيح، رجاله ثقات معروفون؛ غير ابن زغب الإيادي - واسمه: عبد الله-، مختلف في صحبته، وقد كنت ملت في تعليقي على المشكاة (5449) إلى نفيها! والآن أجد نفسي تميل إلى إثباتها؛ لأنه صرح بسماعه من النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لحديث: من كذب عليّ... : عند الطبراني، وإسناده لا بأس به، كما قال الحافظ في التهذيب . وأسد بن موسى صدوق، وفيه كلام لا يضر، لا سيما وقد تابعه عبد الرحمن ابن مهدي: ثنا معاوية... به. أخرجه أحمد (5/288) ، والحاكم (4/425) ، وقال: صحيح الإسناد، وعبد الرحمن (!) بن زُغْبٍ الإيادي معروف في تابعي أهل مصر ! كذا قال! ووافقه الذهبي! المذكور في التهذيب أنه شامي؛ وأن اسمه عبد الله، كما تقدم. وتابعه أيضاً أبو صالح- يعني: عبد الله بن صالح-: عند البيهقي (9/169) ، وابن عساكر في تاريخ دمشق (1/376) عنه وعن غيره.