تشریح:
1۔ جنگ کوئی عام کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو حقیقت کھلتی ہے۔ کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔ اس لئے آرزو یہ ہونی چاہیے کہ یہ موقع ہی نہ آئےتو اچھا ہے۔ مگر جب دوبدو ہونا لازمی ٹھہرے۔ تواللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت وبسالت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے۔ شہادت کی تمنا بھی اسی طرح ہے۔ کہ موقع آنے پر انسان سردھڑ کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے۔ مگر بے موقع یا بے مقصد جان دے دینا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔
2۔ حروری خارجیوں کاایک نام ہے۔ کیونکہ یہ لوگ صفین سے واپس آئے۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الگ ہوکر کوفہ سے باہر مضافات میں حرورا نام کے ایک مقام پرجمع ہوگئے۔ اور یہی ان کا پہلا مرکز تھا۔ اس کی طرف نسبت سے یہ لوگ حروری کہلائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه الشيخان في صحيحيهما ، وكذا أبو عوانة في مستخرجه ، وأحد أسانيده من طريق المؤلف) . إسناده: حدثنا أبو صالح محبوب بن موسى: أخبرنا أبو إسحاق الفَزَارِيُ عن موسى بن عقبة عن سالم أبي النضر.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي صالح هذا، وهو ثقة، كما تقدم قبل ستة أبواب؛ وقد توبع كما يأتي. والحديث أخرجه الحاكم (2/78) من طريق أخرى عن محبوب بن موسى... وقال: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه ! ووافقه الذهبي! ورواه أبو عوانة (4/90) من طريق المؤلف. ثم أخرجه هو، والبخاري (3/208 و 4/223- 224) ، والبيهقي (9/152) من طرق أخرى عن أبي إسحاق... به. وتابعه ابن جريج: أخبرني موسى بن عقبة... به: أخرجه مسلم (5/143) ، وأبو عوانة. وتابعه إسماعيل بن أبي خالد أنه سمع عبد الله بن أبي أوفى يقول: دعا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يوم الأحزاب على المشركين فقال: اللهم منزل الكتاب!... فذكره نحوه. أخرجه البخاري (3/234) ، ومسلم وأبو عوانة وأحمد (4/353 و 355) . (تنبيهان) : الأول: استدركه الحاكم على الشيخين، وقد أخرجاه كما عرفت! ومن العجيب متابعة الذهبي له على ذلك؛ مع أن محبوباً ليس على شرطهما. والآخر: عزاه الأستاذ الدعاس في تعليقه على أبي داود (3/66) للترمذي! وهو وهم؛ وإنما له منه قوله. أن أبواب الجنة تحت ظلال السيوف من حديث أبي موسى الأشعري، وهو مخرج في الإرواء تحت حديث الباب (5/6-7)