تشریح:
جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتا ہے۔ اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اور صالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اور غفلت کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔ اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اور دونوں صورتوں میں آزمائش وامتحان ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی، جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ استدلال ہے، اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ (وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ) (یٰس ۔20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔ اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصد صالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔ مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔