قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ (بَابٌ فِي الْإِمَامِ يَقْبَلُ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ)

حکم : صحیح 

3055. حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ عَنْ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ قَالَ لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ فَقُلْتُ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الْإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنْ التُّجَّارِ فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا وَقَالَ لِي أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ قَالَ قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الْأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الْأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الْأَرْبَعَ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ قُلْتُ قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ قَالَ أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ قَالَ قُلْتُ هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنْ الْغَدِ دَعَانِي قَالَ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ قَالَ قُلْتُ قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ

مترجم:

3055.

جناب عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے حلب میں رسول اللہ ﷺ کے مؤذن سیدنا بلال ؓ سے ملاقات کی اور پوچھا: مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخراجات کے بارے میں بتائیں کہ ان کی کیا کیفیت تھی؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ کے پاس جو کچھ ہوتا وہ میرے سپرد ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے لے کر وفات تک میں ہی اس کا متصرف رہا۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب کوئی مسلمان آدمی آپ کے پاس آتا اور آپ ﷺ اسے دیکھتے کہ اس کے پاس کپڑا نہیں ہے تو آپ ﷺ مجھے ارشاد فرماتے، میں جاتا، کہیں سے قرض لیتا اور اسے چادر لے کر اوڑھا دیتا اور کھانا کھلاتا حتی کہ مجھے مشرکوں میں سے ایک آدمی ملا اس نے کہا: بلال! میرے پاس وسعت ہے، پس جب قرض لینا ہو تو مجھ ہی سے لے لیا کرو۔ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا۔ سو ایک دن میں نے وضو کیا کہ نماز کے لیے اذان کہوں، دیکھا کہ وہ مشرک اپنے کئی تاجر ساتھیوں کے ساتھ آ رہا ہے۔ جونہی اس نے مجھے دیکھا تو بولا: او حبشی! میں نے کہا: ارے حاضر ہوں اور وہ مجھے بڑے برے چہرے کے ساتھ ملا اور بڑی سخت باتیں کیں۔ اس نے کہا: معلوم بھی ہے کہ مہینے میں کتنے دن باقی ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہی ہے۔ اس نے کہا: صرف چار دن باقی ہیں۔ پھر میں تمہیں اپنے مال کے بدلے پکڑ لے جاؤں گا اور بکریاں چرانے پر لگا دوں گا جیسے کہ تو پہلے چرایا کرتا تھا، مجھے اس بہت غم ہوا جیسے کہ انسانوں کو ہوتا ہے حتیٰ کہ جب میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی اور رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں میں تشریف لے گئے، تو میں نے ملاقات کے لیے اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے اجازت دی، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے اس اس طرح کہا ہے۔ اور ادائیگی کے لیے نہ آپ کے پاس کچھ ہے اور نہ میرے پاس، اور وہ مجھے رسوا کرنے پر آمادہ ہے۔ تو آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ کسی مسلمان قبیلے والوں کے ہاں بھاگ جاؤں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو کچھ عنایت فرما دے جس سے میرا قرضہ ادا ہو جائے۔ چنانچہ میں آپ ﷺ کے ہاں سے نکل کر اپنے گھر آیا۔ میں نے اپنی تلوار، تھیلا، جوتا اور ڈھال اپنے سر کے پاس رکھ لیے۔ حتیٰ کہ جب پہلی فجر (کاذب) طلوع ہوئی تو میں نے نکل جانے کا ارادہ کیا، پس اچانک ایک آدمی بھاگتا ہوا میرے پاس آیا، اس نے کہا: بلال! رسول اللہ ﷺ کے ہاں پہنچو۔ میں چلا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ چار اونٹنیاں بیٹھی ہیں اور ان پر بوجھ لدے ہوئے ہیں۔ میں نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خوش ہو جا! اللہ تعالیٰ نے تیرے قرضے کی ادائیگی کا سامان بھیج دیا ہے۔“ پھر فرمایا: ”کیا تو نے چار اونٹنیاں بیٹھی دیکھی ہیں؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹنیاں اور جو ان پر ہے وہ سب تیرا ہے۔ ان پر کپڑے ہیں اور کھانے کا سامان بھی ہے ۔ یہ مجھے فدک کے سردار نے ہدیہ بھیجا ہے۔ انہیں لے لے اور اپنا قرضہ ادا کر۔“ (سیدنا بلال ؓ کہتے ہیں) چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا، اور حدیث بیان کی، پھر میں مسجد کی جانب چل پڑا۔ رسول اللہ ﷺ بھی مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”اس مال کا کیا ہوا جو تجھے ملا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ نے اپنے رسول پر جو قرضہ تھا سب ادا کروا دیا ہے اور کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا کوئی مال بچا بھی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دیکھو! مجھے اس کی طرف سے راحت پہنچاؤ، میں اس وقت تک اپنے کسی اہل کے پاس نہیں جاؤں گا جب تک تم مجھے اس کی طرف راحت نہیں دے دیتے۔“ (تقسیم نہیں کر دیتے۔) پس جب رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی تو مجھے بلایا اور پوچھا: ”اس مال کا کیا ہوا جو تجھے حاصل ہوا ہے؟“ میں عرض کیا وہ میرے ہی پاس ہے، ہمارے پاس کوئی (ضرروت مند) نہیں آیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے رات مسجد میں گزاری۔ اور پوری حدیث بیان کی۔ حتیٰ کہ جب اگلے دن عشاء کی نماز پڑھ چکے تو مجھے بلایا اور پوچھا: ”اس مال کا کیا بنا جو تجھے ملا ہے؟“ میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے راحت عطا کر دی ہے۔ (ضرروت مند لے گئے ہیں) تو آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، آپ ﷺ کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس حالت میں موت نہ آ جائے جب کہ وہ مال آپ ﷺ کے پاس موجود ہو۔ پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا حتیٰ کہ آپ ﷺ اپنی ازواج کے پاس گئے اور ہر ایک کو السلام علیکم کہا حتیٰ کہ اس گھر میں تشریف لے گئے جہاں آپ ﷺ نے رات گزارنی تھی۔ تو یہ تھی وہ حالت، جس کا تو نے مجھ سے سوال کیا ہے۔