تشریح:
فائدہ۔ مویشی پالنے والے جانتے ہیں۔ کہ چراگاہوں میں ریوڑوں کے ریوڑ چرتے پھرتے ہیں اور فطری طریقے پر جانوروں کا ملاپ ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل کی اجرت یا قیمت نہ طے ہوسکتی ہے، نہ اس کی اجرت وصول کرنے کی غرض سے جانوروں کو فطری ملاپ سے روکنا روا ہے۔ حدیث مبارک مادہ جانوروں کا حق ہے۔ کہ نر جانور ان سے ملاپ کریں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 988) اسی چیز پردلالت کرتی ہے۔ رسول اللہﷺنے اس قیمت پر یا اجرت طلب کرنے پر منع فرمایا ہے۔ البتہ ایک صحابی نے جب اصرار سے پوچھا کہ ہم جب (طلب کرنے پر) اپنا نر جانور لے جاتے ہیں۔ تو وہاں ہمارا اکرام کیا جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ تو آپﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدہ خریدوفروخت سے ہٹ کر جانور رکھنے والوں کی سہولت کےلئے لین دین کا جو رواج موجود ہے۔ اسے ختم کرکے سسٹم کو خراب کرنا مقصود نہیں۔ چراگاہوں کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر بعض اوقات نرجانور آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتے۔ اس صورت کو سامنے رکھ کر امام مالک نے نسل کے زیاں سے بچنے کےلئے اس کی اجازت دی ہے۔ (فتح الباري:582/4) جب سے جانوروں کے مالکوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دودھ وغیرہ کے حصول کےلئے اچھی نسل کے جانوروں کی پیدائش ضروری ہے۔ تو اچھی نسل کے نروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔بلکہ اب تو مصنوعی نسل کشی کا جدید طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ اب اچھی نسل کے نراسی غرض سے پالے جاتے ہیں۔ ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اور ان سے حاصل ہونے والے مادے سے مصنوعی طور پر نسل کشی کی جاتی ہے۔ اگر اس کےلئے باقاعدہ قیمت یا اجرت کا تعین کرنے کی بجائے اکرام کے تحت لین دین کا طریقہ رائج ہوجائے۔ تو شرعا اس پراعتراض نہیں ہوگا۔ قدیم فقہاء اور مفسرین نے ملاپ کے عمل پر اجرت یا قیمت نہ لینے کی یہ وجہ ذکر کی ہے۔ کہ جس چیز کی اجرت لی جا رہی ہے۔ اس کی نہ مقدار کا تعین ہوسکتا ہے۔ نہ اس کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ غیر معلوم اور غیر معلوم اور غیر یقینی چیز کی اجرت ہوگی۔ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اگر حرمت کی یہ وجہ صحیح تسلیم کرلی جائے۔ تو مصنوعی طریقوں کی وجہ سے اب یہ غیر معلوم اور غیر یقینی چیز نہیں رہی۔ جدید تکنیک کے ذریعے سے باقاعدہ متعین مقدار میں نر جانور کا مواد مادہ جانور کے رحم میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح تو اجرت کا بھی جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے۔ کہ خود مصنوعی نسل کشی شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواز پر تابیر (کھجور کے پھل دینے والے درختوں پر نرکھجور کا بورلاکر ڈالنا) کی حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو پیداوارحاصل کرنے کے اس مصنوعی طریقے کو آپ نے فطری طورپر ناپسند فرمایا اور اس سے روک دیا لیکن جب معلوم ہوا کہ اس سے کھجوروں کی پیدا وار کم ہوگئی ہے۔ تو آپ نے باقاعدہ اس کی اجازت دے دی۔ اس حدیث کی رو سے نرکا مواد مصنوعی طریقے سے مادہ تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے کی اجازت موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تجارتی طریقوں کی بجائے فطری طریقوں کورائج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ رفاہ عامہ کی غرض سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں تاکہ فطری طریقوں سے اعلیٰ نسل کے جانور حاصل ہوں اور لوگ تجارتی بنیادوں پراس کا انتطام کرنے کی مجبوری سے بچ جایئں۔ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کے حق کے حوالے سے جو اشارہ فرمایا ہے۔ وہ رفق بالحیوانات (جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنا) کی بہترین مثال ہے۔ ان حقوق کو پورا کرنے کی بھی یہی صورت ہے کہ حکومتیں بڑے پیمانے پر اعلیٰ نسل کے نر جانوروں کا انتظام کریں۔