تشریح:
1) ارشاد باری تعالی ہے: (وفوقَ كُلِّ ذِي علمٍ عليمٌ) (يوسف:٧٦) ہرعلم والے سے بڑھ کرعلم والےہوتےہیں ۔ یہ حقیقت صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ میں بھی تھی۔اور کوئی بھی صحابی انفرادی طور پرسارے علم شریعت اور علم نبوت کا جامعہ اور محیط نہ تھا، البتہ مجموعی طور پرعلم شریعت پورے کا پورا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں موجود اور منشرتھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دواوین سنت میں جمع کیا جاتا رہا۔ اور پھر یہی حال اجتہاد کا ہے کہ تمام صحابہ یا ان کے بعد ائمہ اکرام یا قاضی حضرات اس وصف میں برابر نہیں تھے، اس لئے کسی بھی صاحب دین کے لئے روا نہیں کہ ائمہ اربعہ یا دیگر علماء امت کے متعلق یہ گمان رکھے کہ بس وہی شریعت کے کامل ترین عالم تھے یا انہی کا فتوی اور قول دین میں حرف آخر ہے۔اصحاب علم پر واجب ہے کہ غیر منصوص مسائل میں حسب صلا حیت مختلف ائمہ اور علماء کے فتوے اور قول جاننے کی کوشش کریں تاکہ صاحب بصیرت ہو کر فتوے دیں اور فیصلہ کریں۔
(2) اصحاب علم پر واجب ہے کہ دیگر حکام علماء یا قاضیوں سے اگر کوئی غلطی ہو رہی ہو تو انہیں آگاہ کریں اور دلائل سے قائل کریں۔ اسی طرح صاحب منصب کو بھی چاہیے کہے کہ حق کے قبول میں دریغ نہ کرے۔
(3) مجنون پاگل یا چھوٹا نابالغ بچہ کوئی جرم کرے یا سوتے میں کوئی جرم ہوجائے تو اس پر شرعی حد نہیں۔