تشریح:
فقہاء کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل میں پہلی چالیس ضربوں کو حد اورمزید چالیس کو تعزیر پر محمول کیا گیا ہے اور علمائے حق و فقہائے عظام امور شرعیہ میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے ہیں، بلکہ اجتہادی امورمیں اصحاب علم و رائے سے گہرا مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔