قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

حکم : صحیح 

4607.  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ: {وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ}[التوبة: 92], فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ، وَعَائِدِينَ، وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً، ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ! فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: >أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا, فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ, تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

مترجم:

4607.

جناب عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کا بیان ہے کہ ہم سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی: {وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ} ”ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں، آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں، تو وہ اس حال میں لوٹ گئے کہ ان کی آنکھیں، اس غم سے آنسو بہا رہی تھیں کہ انہیں کچھ میسر نہیں جسے وہ خرچ کریں۔“ ہم نے انہیں سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور یہ کہ آپ کی عیادت ہو جائے اور کوئی علمی فائدہ بھی حاصل کر لیں، تو سیدنا عرباض ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف منہ کر لیا اور وعظ فرمایا، بڑا ہی بلیغ اور جامع وعظ، ایسا کہ اس سے ہماری آنکھیں بہہ پڑیں اور دل دہل گئے۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا الوداعی وعظ تھا، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ فرمایا: ”میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اور اپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا، خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“