تشریح:
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جایئں تو ان کے بستر الگ الگ کردیئے جایئں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں۔ یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔واللہ أعلم۔۔ یہ ہوسکتی ہے کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس ومحفل سے دور کر دیا جائے۔ جس سے ان کے خیالات اور عادات واطوار کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔ گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین زریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔ اور دس سال کی عمر کو پہنچ کرنہ کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔ نما ز نہ پڑھنے والے شخص کے بارے میں متقدمین اسلاف اہل علم کے اقوال درج زیل ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ (یقتل تار الصلوة) یعنی تارک صلواۃ کو قتل کردیا جائے۔ مکحول حماد بن یزیز اور وکیع بن جراح کہتے ہیں۔ اس سے توبہ کرائی جائے اگر وہ توبہ کرلے درست ورنہ قتل کردیا جائے۔ امام زہری کہتے ہیں وہ فاسق ہے اس کو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ ابراہیم نخعی۔ ایوب سختیانی۔ عبد اللہ بن مبارک۔ امام احمد بن حنبل۔ اسحاق بن راہویہ۔ اور علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے جو شخص شرعی عذر کے بغیر نماز نہیں پڑھتا۔ حتیٰ کہ نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہے۔ (عون المعبود: 115/2، طبع جدید)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وقال النووي: إسناده حسن ) . إسناده: حدثنا مُؤَمل بن هشام اليَشْكُرِيُ: ثنا إسماعيل عن سَوارٍ أبي حمزة - قال أبو داود: هو سَوار بن داود أبو حمزة المزَنِيُ الصيْرفِي- عن عمرو بن شعيب.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات- على الخلاف الشهور في عمرو بن شعيب، وقد سبق تحقيق الحق فيه، وأنه حسن الإسناد-؛ غير سوار بن داود أبي حمزة المزني الصيرفي، وهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى. وإليك ترجمته من تهذيب التهذيب : قال أبو طالب عن أحمد: شيخ بصري لا بأس به، روى عنه وكيع فقلب اسمه، وهو شيخ يوثق بالبصرة، لم يرْوَ عنه غير هذا الحديث .
قلت: يعني هذا: وقال ابن معين: ثقة . وقال الدارقطني: لا يتابع على أحاديثه، فيعتبر به . وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: يخطئ . ولخَّص ذلك الحافظ في التقريب ، فقال: صدوق له أوهام . وهذا معناه أنه حسن الحديث على أقل تقدير؛ إذا لم يظهر وهمه فيه. ولذلك قال النووي في المجموع (3/10) ، وفي الرياض (ص 148) : رواه أبو داود بإسناد حسن . وإسماعيل: هو ابن عُلَيَّةَ. والحديث أخرجه أحمد (2/187) : ثنا محمد بن عبد الرحمن الطُفَاوي وعبد الله بن بكر السهْمِيُ- المعنى واحد- قالا: ثنا سوار أبو حمزة... به؛ وفيه الزيادة الأتية في الكتاب في الرواية الأخرى؛ بلفظ: إذا أنكح أحدكم عبده أو أجيره؛ فلا ينظرن إلى شيء من عورته؛ فإن ما أسفل من سُرته إلى ركبتيه من عورته . وأخرجه من طريق عبد الله بن بكر السَّهْمِي: الدارقطني (ص 85) ، وعنه البيهقي (2/228- 229) ، والحاكم (11/97) ، والخطيب في تاريخه (2/278) ؛ وليس عند الحاكم الزيادة. وأخرجه الدارقطني، وعنه البيهقي (2/229) من طريق النضْرِ بن شُمَيْل: أنا أبو حمزة الصيرفي- وهو سوار بن داود-... به، ولفظها عنده: وإذا زوج أحدُكم عبدَه آمَتَةُ أو أجيره؛ فلا تنظرِ الأمَةُ بلى شيء من عورته؛ فإن ما تحت السرة إلى الركبة من العورة . والحديث أخرجه البيهقي (2/226) من طريق المؤلف. وقد رواه وكيع أيضا عن سَوَّارٍ ؛ لكنه قلب اسمه كما سبق؛ وقد أخرجه المصنف وهو: