تشریح:
(1) یہ دونوں روایات ضعیف ہیں۔ بنابریں نماز کی حالت میں عورت کے لیے پیروں کا ڈھانپنا ضروری نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ پردے کےعمومی حکم کےاعتبار سے بہتر کہا جاسکتا ہے۔بعض علماء پیروں کا پشت کے ڈھانپنے کے لیے ایک اور روایت سےاستدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ام سلمہ ررضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر عورت کے پیر مردوں کے لباس سے ایک بالشت سے زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں، تو پھر عورتیں اپنا لباس ایک ہاتھ اور لٹکا لیا کریں۔ (ترمذي، حدیث: 1831) اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت نماز میں اپنا پورا جسم ہی ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کےعمومی حکم سے ہے، نمازی عورت کے لیے بھی اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو بھی ڈھانپنا ضروری قرار دینا پڑہےگا۔ کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے، تو حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ (مزید تفصیل کےلیے دیکھیے، فتاوی شیخ الاسلا م ابن تیمیہ: 11؍ 426- 430 طبع جدید، 1998ء –الریاض)
(2) ان احادیث کا مرفوع (یعنی نبی ﷺ سےمروی) ہونا ثابت نہیں مگر بہتر ہے کہ عورت نماز میں اپنا تما م جسم ڈھانپے (کیونکہ اسےسر سمیت سارا جسم ڈھانپنے کا حکم ہے) قابل غور امر یہ ہے کہ جب مسجد جیسے پاکیزہ ماحول اور نماز جیسی عبادت کے دوران میں عورت پر پردے کی اس قدر پابندی ہے تو دیگر کھلے مقامات اور اجنبیوں میں نکلتے ہوئے اسے اپنے پردے کا کس قدر اہتما م کرنا چاہیے!