تشریح:
فوائد ومسائل: (1) یہ صورت حجاب سے پہلے کی رہی ہو گی اور حجاب کے بعد یہ معاملہ شوہروں اور ان کی بیویوں کے مابین یا محارم کے مابین محدود ہو گیا۔ اور مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ عورت کا مستعمل (بچا ہوا) پانی، خواہ عورت محرم ہو یا غیر محرم، پاک ہے اس سے وضو اور غسل جائز ہے۔ (2) جب غیر محرم مرد کا مستعمل( بچا ہوا) پانی عورت استعمال کرسکتی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر محرم مرد کا بچا ہو اکھانا بھی عورت کھا سکتی ہے۔ شریعت میں اس سے ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ والله اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري) . إسناده: حدثشا مسدد: ثشا يحيى عن عبيد الله. وهذا سند صحيح على شرط البخاري؛ ولم يخرجه من هذا الوجه بهذا اللفط. والحديث أخرجه أحمد (2/103 و 143) من طريق محمد بن عبيد وابن نمير كلاهما عن عبيد الله... به دون قوله: ندلي فيه أيدينا، لكن معناه عند ابن نمير بلفظ: ويشرعون فيه جميعاً.
وهو على شرط الشيخين. ثم رأيته في المستدرك (1/162) من طريق أبي خالد عن عبيد الله... به نحوه؛ دون الزيا دة.
وصححه على شرطهما، ووافقه الذهبي.