Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: It Is Dislikes To Face The Qiblah While Relieving Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
10.
سیدنا معقل بن ابی معقل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب پاخانے کے وقت قبلتین (بیت الحرام اور بیت المقدس) کی جانب منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: ’’ابوزید، بنو ثعلبہ قبیلے کے آزاد کردہ غلام تھے۔‘‘
تشریح:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے، شیخ البانی نے بھی اسے ’’منکر‘‘ کہا ہے تاہم جن کے نزدیک صحیح ہے انہوں نے اس میں توجیہ کی ہے مثلاً علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس حکم کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص مدینہ منورہ میں بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے گا وہ لازماً بیت المقدس کی طرف پشت کرے گا۔ دوسری توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے اس لیے اس کا احترام بھی ضروری ہے اور یہ نہی تنزیہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: منكر، وأبو زيد ليس بالمعروف، كما قال ابن المديني وغيره. وقال الحافظ ابن حجر: حديث ضعيف ) .
[إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا وهيب: حدثنا عمرو بن يحيى عن أبي زيد] .
وقد سكت عليه أبو داود كما ترى! وتبعه المنذري في مختصره ! وقول ابن المديني المذكور نقله الحافظ في تهذيب التهذيب . وقال في مختصره التقريب : قيل: اسمه الوليد، مجهول . وقال الذهبي في مختصر سنن البيهقي : لا يدْرى من هو؟! . ولذلك قال الحافظ في الفتح : حديث ضعيف؛ لأن فيه راوياً مجهول الحال .
ومن طريقه: رواه ابن ماجه أيضاً (1/134) ، والبيهقي في سننه للكبرى (1/91) .
ومما سبق تعلم أن قول النووي في المجموع (2/80) : إسناده جيد ! غير جيد، وإنما غره أبو داود بسكوته.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا معقل بن ابی معقل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب پاخانے کے وقت قبلتین (بیت الحرام اور بیت المقدس) کی جانب منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: ’’ابوزید، بنو ثعلبہ قبیلے کے آزاد کردہ غلام تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے، شیخ البانی نے بھی اسے ’’منکر‘‘ کہا ہے تاہم جن کے نزدیک صحیح ہے انہوں نے اس میں توجیہ کی ہے مثلاً علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس حکم کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص مدینہ منورہ میں بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے گا وہ لازماً بیت المقدس کی طرف پشت کرے گا۔ دوسری توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے اس لیے اس کا احترام بھی ضروری ہے اور یہ نہی تنزیہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معقل بن ابی معقل اسدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب اور پاخانہ کے وقت دونوں قبلوں (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوزید بنی ثعلبہ کے غلام ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ma'qil ibn Abu Ma'qil al-Asadi (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) has forbidden us to face the two qiblahs at the time of urination or excretion.