باب: جو شخص اپنے ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Man Putting His Hand In The Container Before Washing It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
105.
ابو مریم کہتے ہیں، میں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے حتیٰ کہ اسے تین بار دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔‘‘ یا فرمایا: ’’اس کا ہاتھ نہ معلوم کہاں کہاں پھرتا رہا۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے، البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اور ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے، مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں، لیکن جمہور کی رائے اقرب الی الصواب ہے، البتہ جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے، تو ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھونا ضروری ہے۔ (2) مذکورہ بالا حدیث میں صرف رات کا تذکرہ اس کے لیے کیا گیا ہے کہ رات میں نجاست لگ جانے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے بہ نسبت دن کے، بہرحال مذکورہ حکم دن اور رات دونوں کے لیے یکساں ہے، لہٰذا دن کو سو کر جاگے تو بھی اس ارشاد پر عمل کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وحسنه الدارقطني، وصححه ابن حبان (1058) ) . إسناده: حدثنا أحمد بن عمرو بن السَّرْح ومحمد بن سلمة المرادي قالا: ثنا ابن وهب عن معاوية بن صالح عن أبي مريم. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أبي مريم- وهو الأنصاري الشامي-، وهو ثقة كما في التقريب . والحديث سكت عليه المنذري.
وأخرجه الدارقطني (19) من طريق بَحْرِ بن نَصْرِ: نا عبد الله بن وهب... به؛ وقال: هذا إسناد حسن وأخرجه البيهقي من طريق المؤلف. ثمّ أخرج من طريق الدارقطني، وهو في سننه (18) ، وابن ماجه من طريق ابن وهب أيضا عن ابن لهيعة وجابر بن إسماعيل الحضرمي عن عقَيْل عن ابن شهاب عن سالم بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فذكره. وهذا شاهد لا بأس به. وقال الدارقطني: إسناد حسن قال البيهقي: لأن جابر بن إسماعيل مع ابن لهيعة في إسناده . قلت: وجابر من رجال مسلمِ، وذكره ابن حبان في الثقات ، وأخرج ابن خزيمة حديثه في صحيحه مقرونآ بابن لهيعة، وقال: ابن لهيعة لا أحتج به، وإنما أخرجت هذا الحديث؛ لأن فيه جابر بن إسماعيل .كذا في التهذيب ؛ ولعل الحديث المشار إليه هو هذا. وله شاهد آخر عن أبي الزبير عن جابر بزيادة: ولا على ما وضعها . رواه الدارقطني وقال: إسناده حسن ؛ كذا قال! وفيه نظر؛ لأنه من رواية زياد البَكّائي عن عبد الملك بن أبي سليمان عن أبي الزبير... به. وهكذا رواه ابن ماجه (395) . ووجه النظر: أن زياداًا لبَكّائي- وهو ابن عبد الله- فيه لين في روايته عن غير ابن إسحاق؛ كما في التقريب . وشيخه عبد الملك بن أبي سليمان صدوق له أوهام؛ كما قال الحافظ؛ وقد وهم هو أو البكائي في سنده ومتنه: أما السند؛ فهو أنه جعله من (مسند جابر) ! وإنما هو من مسند أبي هريرة:
رواه عنه جابر. كذلك رواه معقل عن أبي الزبير عن جابر عن أبي هريرة: أخرجه مسلم (1/161) ، وأبو عوانة (1/263- 264) . وتابعه ابن لهيعة عن أبي الزبير قال: أخبرني جابر... به: أخرجه أحمد (2/403) . وأمّا المتن؛ فهو أنه زاد فيه: ولا على ما وضَعَها . فهي زيادة منكرة؛ لتفرد البَكّائي بها عن عبد الملك، ومخالفة معقل وابن لهيعة ولكل من روى الحديث عن أبي هريرة من الثقات.وقد ساق أسانيدهم: مسلم وأبو عوانة وغيرهما، وزاد عليهم الإمام أحمد
(2/241 و 253 و 259 و 265 و 271 و 284 و 316 و 382 و 395 و 403 و 455 و 465 و 471 و 500) ، وتقدّم بعضها. فكل هؤلاء الثقات لم يذكروا تلك الزيادة؛ فهي منكرة يقيناً.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابو مریم کہتے ہیں، میں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ’’جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے حتیٰ کہ اسے تین بار دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔‘‘ یا فرمایا: ’’اس کا ہاتھ نہ معلوم کہاں کہاں پھرتا رہا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے، البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اور ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے، مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں، لیکن جمہور کی رائے اقرب الی الصواب ہے، البتہ جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے، تو ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھونا ضروری ہے۔ (2) مذکورہ بالا حدیث میں صرف رات کا تذکرہ اس کے لیے کیا گیا ہے کہ رات میں نجاست لگ جانے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے بہ نسبت دن کے، بہرحال مذکورہ حکم دن اور رات دونوں کے لیے یکساں ہے، لہٰذا دن کو سو کر جاگے تو بھی اس ارشاد پر عمل کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں رہا ؟ یا کدھر پھرتا رہا“۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: When any of you wakes up from sleep, he should not put his hand in the utensil until he washes it three times, for none of you knows where his hand remained during the night or where it went round.