Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Manner of The Prophet's Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
107.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ جناب حمران کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور مذکورہ بالا روایت کی مانند ذکر کیا، اس میں کلی اور ناک میں پانی چڑھانے کا ذکر نہیں کیا، اور (ابوسلمہ نے) اپنی حدیث میں کہا کہ سر کا مسح تین بار کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے پھر (سیدنا عثمان ؓ نے) کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی وضو کیا اور فرمایا ’’جو شخص اپنے اعضائے وضو کو اس سے کم بار دھوئے تو (بھی) کافی ہے۔“ اور ( ابوسلمہ نے اپنی حدیث میں ) نماز کا ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، ومال ابن الجوزي إلى تصحيحه، وقال ابن الصلاح: إنه حديث حسن، وقال النووي: إسناده حسن، وربما ارتفع من الحسن إلى الصحة بشواهده وكثرة طرقه، وصححه ابن خزبمة، وقواه الحافظ) . إسناده: حدثنا محمد بن المثنى: ثنا الضحاك بن مَخْلَد: ثنا عبد الرحمن بن وَرْدَان: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن.وهذا إسناد حسن؛ رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير عبد الرحمن بن وردان؛ قال ابن معين: صالح . وقال أبو حاتم:
ما بحديثه بأس . وذكره ابن حبان في الثقات . وقال الدارقطني: ليس بقوي . والحديث أخرجه البيهقي من طريق المؤلف. ثمّ أخرجه هو والدارقطني (34) من طريقين آخرين عن الضحاك بن مخلد... به ورواه البزار في مسنده بإسناد المصنف هذا، وقد ساقه الزيلعي في نصب الراية (1/32) . وقال النووي في المجموع (1/434) : رواه أبو داود بإسناد حسن، وقد ذكر أيضاا لشيخ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله أنه حديث حسن، وربما ارتفع من الحسن إلى الصحة بشواهده وكثرة طرقه؛ فإن البيهقي وغيره رووه من طرق كثيرة غير طريق أبي داود . وللحديث طريق أخرى عن حمران؛ فقال الحافظ في التلخيص - (1/411) بعد أن ذكره من هذا الوجه-: وتابعه هشام بن عروة عن أبيه عن حمران: أخرجه البزار. وأخرجه أيضا من طريق عبد الكريم عن حمران؛ وإسناده ضعيف. ورواه أيضا من حديث أبي علقمة
مولى ابن عباس عن عثمان؛ وفيه ضعف . قلت: وله طريق أخرى عن عثمان؛ ستأتي في الكتاب قريباً رقم (98) ؛ وقد
صححها ابن خزيمة، كما في الفتح (1/209) ؛ ونصه: وقد روى أبو داود من وجهين؛ صحح أحدهما ابن خزيمة غيره؛ في حديث عثمان بتثليث مسح الرأس، والزيادة من الثقة مقبولة . وسيأتي هناك أن ابن خزيمة رواه من ذلك الوجه. ثمّ قال الحافظ في التلخيص : ومال ابن الجوزي في كشف المشكل إلى تصحيح التكرير .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ جناب حمران کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور مذکورہ بالا روایت کی مانند ذکر کیا، اس میں کلی اور ناک میں پانی چڑھانے کا ذکر نہیں کیا، اور (ابوسلمہ نے) اپنی حدیث میں کہا کہ سر کا مسح تین بار کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے پھر (سیدنا عثمان ؓ نے) کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی وضو کیا اور فرمایا ’’جو شخص اپنے اعضائے وضو کو اس سے کم بار دھوئے تو (بھی) کافی ہے۔“ اور ( ابوسلمہ نے اپنی حدیث میں ) نماز کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمران کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ کو وضو کرتے دیکھا، پھر اس حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی، مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا تذکرہ نہیں کیا، حمران نے کہا: عثمان ؓ نے اپنے سر کا تین بار مسح کیا پھر دونوں پاؤں تین بار دھوئے، اس کے بعد آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا، اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس سے کم وضو کرے گا (یعنی ایک ایک یا دو دو بار اعضاء دھوئے گا) تو بھی کافی ہے‘‘ ، یہاں پر نماز کے معاملہ کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Humran said: I saw ‘Uthman b. ‘Affan (RA) performing ablution. He then narrated the same tradition. In this version there is no mention of rinsing the mouth and snuffing up water. This traditions adds: “He wiped his head three times. He then washed his feet three times. He then said: I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) performing ablution in like manner. He (the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)) said: He who performs ablution less than this, it is sufficient for him. The narrator did not mention prayer (in this version).