Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: It Is Dislikes To Face The Qiblah While Relieving Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
11.
مروان اصفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی سواری قبلہ رخ بٹھائی اور پھر اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! کھلی فضا میں اس سے روکا گیا ہے مگر جب تمہارے اور قبلے کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی حرج نہیں۔
تشریح:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے بشرط صحت یہ عمل ان حضرات کی دلیل ہے جو بند جگہ (یعنی بیت الخلا) یا اوٹ میں قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور معروف فقہی قاعدہ ہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کے صریح فرمان اور آپ کے فعل میں تعارض محسوس ہو وہاں امت کے لیے معتبر آپ کا فرمان ہوا کرتا ہے، اس لیے یہاں آپﷺ کے صریح فرمان اور فعل میں تعارض نہیں بلکہ آپﷺ کا فعل آپ کے لیے خاص اور امت کے لیے وہی فرمان ہے جس کا بیان اوپر گزرا ہے۔ یا بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نہی عام ہے البتہ گھروں یا تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں رخصت ہے اور بقول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہی تنزیہی ہے اور فعل بیان جواز کے لیے ہے۔ بہر حال احتیاط اسی میں ہے کہ پیشاب پاخانے کی حالت میں قبلے کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے۔ (نیل الأوطار، ج: 1، باب نهي المتخلي عن استقبال القبلة و استدبارها)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، ورجاله رجال الصحيح . وقد حسنه الحازمي، والحافظ في الفتح ، وصححه الد ارقطني والحاكم والذ هبي) . إسناده: ثنا محمد بن يحيى بن قارس: ثنا صفوان بن عيسى عن الحسن بن ذَكوان عن مروان الأصفر.وهذا إسناد حسن: محمد بن يحيى بن فارس: هو ابن يحيى بن عبد الله بن فارس الذهلي، ثقة حافظ، أحد الأعلام، روى له البخاري. وصفوان بن عيسى ثقة من رجال مسلم.
والحسن بن ذكوان ثقة من رجال البخاري، لكن فيه كلام، ولذلك أورده الذهبي في الميزان ؛ وحكى أقوال الأئمة فيه، واعتمد هو على أنه صالح الحديث. وقال الحافظ في التقريب : صدوق يخطئ .
قلت: فمثله حسن الحديث إن شاء الله تعالى؛ ما لم يظهر خطأه. وأما مروان الأصفر؛ فثقة من رجال الشيخين. والحديث أخرجه الدارقطتي أيضا (22) ، والحاكم (1/154) ، والبيهقي (1/92)
- من طريقه، ومن طريق أبي داود-؛ كلهم عن صفوان به. وقال الدارقطني: هذا صحيح، كلهم ثقات . وقال الحاكم: صحيح على شرط البخاري؛ فقد احتج بالحسن بن ذكوان ! ووافقه الذهبي!
وفيه نظر من وجهين، يعرقان مما سبق من الكلام على الحديث.
والحديث سكت عليه المنذري. وقال الحافظ في الفتح (1/199) : سنده لا بأس به . ونقل الشوكاني عن الفتح أيضا أْنه قال: إسناده حسن . وسكت عليه في التلخيص . وأخرجه الحازمي في ا لاعتبار (ص 26) وقال: حديث حسن .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
مروان اصفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی سواری قبلہ رخ بٹھائی اور پھر اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! کھلی فضا میں اس سے روکا گیا ہے مگر جب تمہارے اور قبلے کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے بشرط صحت یہ عمل ان حضرات کی دلیل ہے جو بند جگہ (یعنی بیت الخلا) یا اوٹ میں قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور معروف فقہی قاعدہ ہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کے صریح فرمان اور آپ کے فعل میں تعارض محسوس ہو وہاں امت کے لیے معتبر آپ کا فرمان ہوا کرتا ہے، اس لیے یہاں آپﷺ کے صریح فرمان اور فعل میں تعارض نہیں بلکہ آپﷺ کا فعل آپ کے لیے خاص اور امت کے لیے وہی فرمان ہے جس کا بیان اوپر گزرا ہے۔ یا بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نہی عام ہے البتہ گھروں یا تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں رخصت ہے اور بقول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہی تنزیہی ہے اور فعل بیان جواز کے لیے ہے۔ بہر حال احتیاط اسی میں ہے کہ پیشاب پاخانے کی حالت میں قبلے کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے۔ (نیل الأوطار، ج: 1، باب نهي المتخلي عن استقبال القبلة و استدبارها)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مروان اصفر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا، انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! ( عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے البتہ ایسی جگہ جہاں قبلہ کی طرف سے کوئی چیز آڑ کا کام دے وہاں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن احتیاط کی بات یہی ہے کہ ہر جگہ قبلہ کا احترام ملحوظ رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): Marwan al-Asfar said: I saw Ibn 'Umar (RA) make his camel kneel down facing the qiblah, then he sat down urinating in its direction. So I said: AbuAbdurRahman, has this not been forbidden? He replied: Why not, that was forbidden only in open country; but when there is something between you and the qiblah that conceals you , then there is no harm.