تشریح:
فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے بشرط صحت یہ عمل ان حضرات کی دلیل ہے جو بند جگہ (یعنی بیت الخلا) یا اوٹ میں قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور معروف فقہی قاعدہ ہے کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کے صریح فرمان اور آپ کے فعل میں تعارض محسوس ہو وہاں امت کے لیے معتبر آپ کا فرمان ہوا کرتا ہے، اس لیے یہاں آپﷺ کے صریح فرمان اور فعل میں تعارض نہیں بلکہ آپﷺ کا فعل آپ کے لیے خاص اور امت کے لیے وہی فرمان ہے جس کا بیان اوپر گزرا ہے۔ یا بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نہی عام ہے البتہ گھروں یا تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں رخصت ہے اور بقول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہی تنزیہی ہے اور فعل بیان جواز کے لیے ہے۔ بہر حال احتیاط اسی میں ہے کہ پیشاب پاخانے کی حالت میں قبلے کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے۔ (نیل الأوطار، ج: 1، باب نهي المتخلي عن استقبال القبلة و استدبارها)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، ورجاله رجال الصحيح . وقد حسنه الحازمي، والحافظ في الفتح ، وصححه الد ارقطني والحاكم والذ هبي) . إسناده: ثنا محمد بن يحيى بن قارس: ثنا صفوان بن عيسى عن الحسن بن ذَكوان عن مروان الأصفر.وهذا إسناد حسن: محمد بن يحيى بن فارس: هو ابن يحيى بن عبد الله بن فارس الذهلي، ثقة حافظ، أحد الأعلام، روى له البخاري. وصفوان بن عيسى ثقة من رجال مسلم.
والحسن بن ذكوان ثقة من رجال البخاري، لكن فيه كلام، ولذلك أورده الذهبي في الميزان ؛ وحكى أقوال الأئمة فيه، واعتمد هو على أنه صالح الحديث. وقال الحافظ في التقريب : صدوق يخطئ .
قلت: فمثله حسن الحديث إن شاء الله تعالى؛ ما لم يظهر خطأه. وأما مروان الأصفر؛ فثقة من رجال الشيخين. والحديث أخرجه الدارقطتي أيضا (22) ، والحاكم (1/154) ، والبيهقي (1/92)
- من طريقه، ومن طريق أبي داود-؛ كلهم عن صفوان به. وقال الدارقطني: هذا صحيح، كلهم ثقات . وقال الحاكم: صحيح على شرط البخاري؛ فقد احتج بالحسن بن ذكوان ! ووافقه الذهبي!
وفيه نظر من وجهين، يعرقان مما سبق من الكلام على الحديث.
والحديث سكت عليه المنذري. وقال الحافظ في الفتح (1/199) : سنده لا بأس به . ونقل الشوكاني عن الفتح أيضا أْنه قال: إسناده حسن . وسكت عليه في التلخيص . وأخرجه الحازمي في ا لاعتبار (ص 26) وقال: حديث حسن .