Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: The Adhan During Travel)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1203.
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”تمہارا رب بکریوں کے اس چرواہے پر تعجب کرتا ( خوش ہوتا ) ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر (اکیلا ہوتے ہوئے) نماز کے لیے اذان کہتا اور نماز پڑھتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے، دیکھو میرے اس بندے کو جو نماز کے لیے اذان اور اقامت کہتا ہے (اور) مجھ ہی سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے اس بندے کو بخش دیا ہے اور جنت میں داخل کر دیا ہے۔“
تشریح:
1۔ اللہ عزو جل کا تعجب کرنا اسی طرح ہے۔ جو اس کی شان جلالت کے لائق ہے۔ یا پھر یعجب یرضیٰ کے معنی ہیں۔ یعنی خوش ہوتا ہے۔ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ) اہل سنت والجماعت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں وارد تمام صفات الٰہیہ پر ایمان رکھتے اور ان کا اثبات کرتے ہیں۔ کسی قسم کی تشبیہ تمثیل تاویل یا تعطیل کے قائل نہیں ہیں۔ 2۔ اما م ابو دائود نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اکیلا چرواہا اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے تو مسافر کے لئے بھی اذان واقامت کہنی مستحب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناد صحيح، وقال المنذري: رجاله ثقات ) . إسناده: حدثنا هارون بن معروف: ثنا ابن وهب عن عمرو بن الحارث أن أبا عُشئانَةَ الَعَافِرِفيَ حدثه عن عقبة بن عامر.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أبي عشانة - واسمه: حَيَ بن يُؤْمِنَ-، وهو ثقة. وقال المنذري في مختصره (2/50) رجال إسناده ثقات . والحديث أخرجه النسائي (1/108) من طريق أخرى عن ابن وهب... به. وتابعه ابن لهيعة كن أبي عشانة... به مختصراً. أخرجه أحمد (4/145 و 157) .
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”تمہارا رب بکریوں کے اس چرواہے پر تعجب کرتا ( خوش ہوتا ) ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر (اکیلا ہوتے ہوئے) نماز کے لیے اذان کہتا اور نماز پڑھتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے، دیکھو میرے اس بندے کو جو نماز کے لیے اذان اور اقامت کہتا ہے (اور) مجھ ہی سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے اس بندے کو بخش دیا ہے اور جنت میں داخل کر دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ اللہ عزو جل کا تعجب کرنا اسی طرح ہے۔ جو اس کی شان جلالت کے لائق ہے۔ یا پھر یعجب یرضیٰ کے معنی ہیں۔ یعنی خوش ہوتا ہے۔ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ) اہل سنت والجماعت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں وارد تمام صفات الٰہیہ پر ایمان رکھتے اور ان کا اثبات کرتے ہیں۔ کسی قسم کی تشبیہ تمثیل تاویل یا تعطیل کے قائل نہیں ہیں۔ 2۔ اما م ابو دائود نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اکیلا چرواہا اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے تو مسافر کے لئے بھی اذان واقامت کہنی مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا۱؎ اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں تنہا آدمی کے لیے بھی اذان مشروع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqbah ibn 'Amir (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: Allah is pleased with a shepherd of goats who calls to prayer at the peak of a mountain, and offers prayer, Allah, the Exalted, says: Look at this servant of Mine; he calls to prayer and offers it and he fears Me. So I forgive him and admit him to paradise.