Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Rules of Law about the Prayer during Journey
(Chapter: Combining Between Two Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1206.
سیدنا معاذ بن جبل ؓ کا بیان ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ آپ نے ایک دن نماز کو مؤخر کر دیا، پھر تشریف لائے اور ظہر اور عصر اکٹھی پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں چلے گئے، پھر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھائیں۔
تشریح:
مسافر کسی منزل پر پڑائو کیے ہوئے ہو اسی اثنائے سفر میں دونوں صورتوں میں نمازوں کو جمع کرسکتا ہےاور زیادہ افراد ہو ں تو وہ جماعت کے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وقد أخرجه مسلم في صحيحه ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن أبي الزبير المكي عن أبي الطفيل عامر ابن واثلة أن معاذ بن جبل أخبرهم.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط مسلم إن كان أبو الزبير قد سمعه من أبي الطفيل، وهو على شرط مسلم على كل حال؛ فقد أخرجه - كما يأتي- مصرحاً بالتحديث في رواية. والحديث أخرجه البيهقي (3/162) من طريق المؤلف. وهو في الموطأ (1/160- 161) . وعنه:النسائي (1/98) ، والدارمي (1/356) . وعنه: مسلم (7/60) ، والبيهقي أيضا من طرق أخرى عن مالك... به. وأخرجه مسلم (2/151- 152) ، وابن ماجه (1/331) ، وابن أبي شيبة في المصنف (2/1/113) ، والطيالسي (1/126/595) ، وأحمد (5/229 و 230 و 236) من طرق أخرى عن أبي الزبير... به مختصراً؛ وقد صرح مسلم وغيره- في رواية- بتحديث أبي الزبير؛ وزاد:
قلت: ما حمله على ذلك؟ قال: أراد أن لا يًحْرِجَ أمته. أخرجه مسلم من طريق قرة بن خالد: حدثنا أبو الزبير... به. وللحديث شاهد من حديث ابن عباس، وهو مخرج في الإرواء (2/579) .
دین اسلام کا ایک ستون نماز ہے اور یہ اسلام کا ایک ایسا حکم کہے جس کا کوئی مسلمان انکاری نہیں‘قرآن مجید اور احادیث میں اسے ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے نماز کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے ‘خواہ جنگ ہو رہی ہو یا آدمی سفر کی مشکلات سے دو چار ہو یا بیمار ہو ہر حال میں نماز فرض ہے ‘تا ہم موقع کی مناسبت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔سفر میں نماز قصر کرنا یعنی چار فرض کی بجائے دو فرض ادا کرنا ‘جیسے ظہر‘ عصر اور عشاء کی نمازیں ہیں ‘یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے ‘لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا مستحب ہے سفر کی نماز سے متعلقہ چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
٭ظہر‘ عصر اور عشاءکی نمازوں میں دو دو فرض پڑھے جائیں مغرب اور فجر کے فرضوں میں قصر نہیں ہے۔
٭سفر میں سنتیں اور نوافل پڑھنا ضروری نہیں‘دوگانہ ہی کافی ہے ‘البتہ عشاء کے دوگانے کے ساتھ وتر ضروری ہیں۔اسی طرح فجر کی سنتیں بھی پڑھی جائیں کیونکہ ان کی فضیلت بہت ہے اور نبیﷺ سفر میں بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔
٭نماز قصر کرنا کتنی مسافت پر جائز ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت انس کی روایت ہے :’’رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر اختیار فرماتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔‘‘(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین و قصرھا ‘حدیث:691) حافظ ابن حجر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ صریح حدیث ہے جو مدت سفر کے بیان میں وارد ہوئی ہے ۔‘‘ مذکورہ حدیث میں راوی کوشک ہے تین میل یا تین فرسخ ؟اس لیے تین فرسخ کو راجح قرار دیا گیا ہے اس اعتبار سے 9 میل تقریباً 23،22 کلو میٹر مسافت حد ہو گی ۔یعنی اپنے شہر کی حدیث سے نکل کر 22 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر دوگانہ کیا جائے ۔
٭قصر کرنا اس وقت جائز ہے جب قیام کی نیت تین دن کی ہوگی اگر شروع دن ہی سے چار یا اس سے زیادہ دن کی نیت ہوگی ‘تو مسافر متصور نہیں ہوگا ‘اس صورت میں نماز شروع ہی سے پوری پڑھنی چاہیے ‘تا ہم دوران سفر میں قصر کر سکتاہے۔
٭نیت تین دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ س ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو تر دو کی صورت میں نمتاز قصر ادا کی جا سکتی ہے ‘چاہے اسے وہاں مہینہ گزر جاجائے۔
٭سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھی جا سکتی ہیں یعنی جمع تقدم (عصر کو ظہر کے وقت اور عشاء کو مغرب کے وقت میں ادا کرنا )اور جمع تاخیر(ظہر کو عصر کے وقت اور مغرب کو عشاء کے وقت میں ادا کرنا ) دونوں طرح جائز ہے۔
سیدنا معاذ بن جبل ؓ کا بیان ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ آپ نے ایک دن نماز کو مؤخر کر دیا، پھر تشریف لائے اور ظہر اور عصر اکٹھی پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں چلے گئے، پھر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھائیں۔
حدیث حاشیہ:
مسافر کسی منزل پر پڑائو کیے ہوئے ہو اسی اثنائے سفر میں دونوں صورتوں میں نمازوں کو جمع کرسکتا ہےاور زیادہ افراد ہو ں تو وہ جماعت کے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ بن جبل ؓ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے، ایک دن آپ ﷺ نے نماز مؤخر کی پھر نکلے اور ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی۲؎ پھر اندر (قیام گاہ میں)۳؎ چلے گئے، پھر نکلے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1: جمع کی دو قسمیں ہیں: ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی نماز کو آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اول وقت میں پڑھنے کو جمع صوری کہتے ہیں، اور ایک نماز کو دوسری کے وقت میں جمع کر کے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے یہ دونوں جمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لئے ہوئی ہے، اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے، کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔ ۲؎: اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین (دو نماز کو ایک وقت میں ادا کرنے) کی رخصت ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بھی دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے۔ ۳؎: اس سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu’adh bin Jabal (RA): They (the Companions) proceeded on the expedition of Tabuk along with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He combined the noon and afternoon prayers and the sunset and night prayers. One day he delayed the prayer and came out (of his dwelling) and combined the noon and the afternoon prayers. He then went it and then came out and combined the sunset and the night prayers.