Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Concession In This Regard)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
13.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے لیے قبلے کی طرف منہ کریں۔ پھر میں نے آپ ﷺ کی وفات سے ایک سال پہلے آپ کو دیکھا کہ آپ ﷺ قبلے کی طرف منہ کر کے (قضائے حاجت کے لیے) بیٹھے تھے۔
تشریح:
فائدہ: ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گھروں میں تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں بیت اللہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے جبکہ اس مسئلہ کی جملہ احادیث سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے جیسا کہ حدیث نمبر 11 کے فوائد ومسائل میں گزرا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : (الروضة الندية شرح الدررالبهية، باب ترک الاستقبال واستدبار القبلة)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وحسنه الترمذي والبزار وكذ ا النووي، وصححه البخاري وابن السكن والحاكم ووافقه الذهبي. درواه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما )إسناده: ثنا محمد بن يشار: ثنا وَهْبُ بن جرير: ثنا أبي قال: سمعت محمد
ابن إسحاق يحدث عن أبان بن صالح عن مجاهد عن جابر. وهذا إسناد حسن؛ رجاله كلهم ثقات، وفي محمد بن إسحاق- صاحب المغازي - كلام لا يضر؛ ولا ينزل حديثه عن درجة الحسن.
والحديث أخرجه الترمذي أيضا، وابن ماجه والحاكم والبيهقي، وأحمد (1/3/360) من طرق عن محمد بن إسحاق به.
وفي رواية أحمد تصريح ابن إسحاق بالتحديث، وكذا في رواية الحاكم، وقال: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي! وهو من تساهلهما كما سبق. وقال الترمذي: حديث حسن . ونقل عنه ابن القيم في تهذيب السنن (1/22) أنه قال: سألت محمداً عنه ؟ فقال: حديث صحيح . وكذا نقله الحافظ في التلخيص (1/460) .
قلت: ورواه الدارقطني أيضا (22) من هذا الوجه، وقال: رجاله كلهم ثقات . ورواه أيضا البزار- وحسنه-، وابن الجارود وابن خزيمة وابن حبان، وصححه أيضا ابن السكن. قال الحافظ: وتوقف فيه النووي؛ لعنعنة ابن إسحاق، وقد صرح بالتحديث في روايةأحمد وغيره. وضعفه ابن عبد البر بأبان بن صالح! ووهم في ذلك؛ فإنه ثقة باتفاق، وادعى ابن حزم أنه مجهول؛ فغلط . (تنبيه) : ذكر ابن القيم- وتبعه الحافظ- أن الحديث لا حجة فيه؛ لأنه حكاية فعل لا عموم لها، ولا يعلم هل كان في فضاء أو بنيان؟ وهل كان لعذرمن ضيق مكان ونحوه أو اختياراً؟ فلا يجوز أن يقدم على النصوص الصحيحة الصريحة في المنع.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے لیے قبلے کی طرف منہ کریں۔ پھر میں نے آپ ﷺ کی وفات سے ایک سال پہلے آپ کو دیکھا کہ آپ ﷺ قبلے کی طرف منہ کر کے (قضائے حاجت کے لیے) بیٹھے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گھروں میں تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں بیت اللہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے جبکہ اس مسئلہ کی جملہ احادیث سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے جیسا کہ حدیث نمبر 11 کے فوائد ومسائل میں گزرا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : (الروضة الندية شرح الدررالبهية، باب ترک الاستقبال واستدبار القبلة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا ، (لیکن) میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ ﷺ کو (قضائے حاجت کی حالت میں) قبلہ رو دیکھا ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا جابر رضی اللہ عنہ کو یہ وہم تھا کہ ممانعت عام تھی، صحرا اور آباد علاقہ دونوں کو شامل تھی، اسی وجہ سے آپ نے اسے نسخ پر محمول کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل سے یہ نہی (ممانعت) منسوخ ہو گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn ‘Abdullah (RA): The Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade us to face the qiblah at the time of making water. Then I saw him facing it (qiblah) urinating or easing himself one year before his death.