مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
136.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ( ایک بار ) نبی کریم ﷺ نے وضو کیا تو دو دو بار کیا ( یعنی اعضائے وضو کو دو دو بار دھویا ) ۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وكذا قال الترمذي، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا محمد بن العلاء: ثنا زيد بن الحُبَاب: ثنا عبد الرحمن بن ثوبان: ثنا عبد الله بن الفضل الهاشمي عن الأعرج عن أبي هريرة. وهذا إسناد حسن رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير عبد الرحمن بن ثوبان؛ وهو جده؛ واسم أبيه ثابت؛ وهو حسن الحديث، وقد تكلم فيه من قبل حفظه، وأعدل الأقوال فيه قول المصنف: كان فيه سلامة، وليس به بأس، وكان مجاب الدعوة .
قلت: وقد صحح له الحافط العراقي حديثاً، سيأتي في الكتاب (رقم...) ،وحسنه الحافط وغيره؛ كما سنبينه هناك إن شاء الله تعالى. والحديث أخرجه الترمذي (1/62) قال: حدثنا أبو كرَيب[وهو محمد بن العلاء ] ومحمد بن رافع قالا: حدثنا زيد بن حباب. وأخرجه أحمد (2/288 و 644) : ثنا زيد بن الحباب... به. وأخرجه الدارقطني (34) ، والبيهقي (1/39) عن زيد. وقال الترمذي:
حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن ثوبان عن عبد الله بن
الفضل ، وهو إسناد حسن صحيح .
وصححه ابن حبان، كما في الفتح (1/208) .
ثم رأيت الحاكم أخرج الحديث في المستدرك (1/150) من هذا الوجه،
وقال:
صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!
فوهما.
وله شاهد من حديث عبد الله بن زيد الأنصاري بهذا اللفظ:
أخرجه البخاري، والدارقطني (35) ، وأحمد (4/41) ، وهو حديث آخر
لعبد الله غير حديثه المتقدّم (رقم 110) ؛ وإسناده غير إسناده.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘