تشریح:
1۔ سورہ مزمل میں حکم ہے کہ (وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا) یعنی قرآن کریم کو ٹھر ٹھر کر پڑھو۔ یعنی جلدی نہ کی جائے۔ اور الفاظ و معنی سے حظ حاصل کیا جائے۔
2۔ اس حدیث میں مخلص باعمل حفاظ قراء اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنانے والوں کی فضیلت کا بیان ہے۔ کہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں یہ لوگ سب سے افضل ہوں گے۔ جب کہ بعض علماء کا یہ قول بھی ہے۔ کہ قرآن کے تقاضوں پر عمل بھی بمعنی قراءت ہی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ) (ص۔29) یہ عظیم کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ بڑی با برکت ہے۔ تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں۔ اور عقل والے نصیحت پکڑیں۔ اور ایسا حفظ اور ایسی تلاوت جو اخلاص اور عمل سے خالی ہو۔ اس پر مذکورہ درجات مرتب نہیں ہوں گے۔ العیاذ باللہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى عن سفيان: حدثني عاصم بن بَهْدلةَ عن زِر عن عبد الله بن عمرو.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الصحيح ؛ إلا أن الشيخين إنما أخرجا لعاصم- وهو ابن أبي النجُودِ- مقروناً بغيره، وهو حسن الحديث. والحديث أخرجه الترمذي (2/150) ، وابن حبان (1790) ، وابن نصر (70) ، والحاكم (1/552- 553) ، وأحمد (2/192) من طرق أخرى عن سفيان الثوري... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وقال الحاكم: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! وله شاهد من حديث أبي هريرة... مرفوعاً وموقوفاً نحوه. أخرجه الترمذي، وصححه، ورجح الموقوف. وهو كما قال؛ فقد أخرجه أحمد (2/471) من طريق الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة- أو عن أبي سعيد؛ شك الأعمش- قال: يقال لصاحب القرآن... الحديث. وإسناده صحيح موقوف، ولكنه في حكم المرفوع؛ لأنه لا يقال من قبل الرأي، ولذلك أخرجه أحمد في المسند . وله شاهد ثان من حديث بريدة... مرفوعاً نحوه. أخرجه الدارمي (2/450) بسند حسن في الشواهد. وشاهد ثالث من حديث أبي سعيد الخدري: أخرجه أحمد (3/40) ، وابن ماجه (3780) .