Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wiping Over the 'Imamah (Turban))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
147.
سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ کے سر پر ایک قطری پگڑی تھی تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ پگڑی کے نیچے کیے اور سر کے اگلے حصے کا مسح کیا اور پگڑی کو نہ کھولا۔
تشریح:
ملحوظہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں اس میں پگڑی پر مسح کرنے کی صراحت بھی نہیں ہے مگر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے باقی مسح پگڑی پر پورا کیا۔ یہاں عدم ذکر نفی اصل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ پگڑی پر مسح صحیح سنت سے ثابت ہے ۔ جیسے کہ حدیث نمبر146 میں اس کی اجازت گزری ہے اور آگے حدیث نمبر150 میں بھی اس کی صراحت آرہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، من أجل أبي معقل، فإنه مجهول اتفاقاً، وقال ابن السكن: لا يثبت إسناده ، وقال الحافظ: في إسناده نظر ) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا ابن وهب: حدثني معاوية بن صالح عن عبد العزيز بن مسلم عن أبي معقل. وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير أبي معقل، قال أبو علي بن السكن:
لا يثبت إسناده . وقال ابن القطان: أبو معقل مجهول . وكذا نقل ابن بطال عن غيره. وقال الذهبي: لا يعرف . والخزرجي والحافظ: مجهول . لكن الحافظ- في الفتح - حاول تقوية الحديث؛ حيث قال (1/234) :
قد روي عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مسح مقدم الرأس من غير مسح على العمامة ولا تعرض لسفر، وهو ما رواه الشافعي من حديث عطاء: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأ، فحسر العمامة عن رأسه، ومسح مقدم رأسه. وهو مرسل؛ لكنه اعتضد بمجيئه من وجه أخر موصولاً؛ أخرجه أبو داود من حديث أنس؛ وفي إسناده أبو معقل، لا يعرف
حاله. فقد اعتضد كل من المرسل والموصول بالآخر، وحصلت القوة من الصورة المجموعة ! قلت: لكن حديث عطاء لا يصح إسناده إليه؛ فإنه عند الشافعي في مسنده (ص 5) هكذا: أخبرنا مسلم عن ابن جريج عن عطاء . ومسلم هذا: هو ابن خالد الزنْجِي؛ قال الحافظ في التقريب : صدوق، كثير الأوهام ، وابن جريج: كان يدلس .
قلت: وقد عنعنه؛ فيحتمل أن يكون سمعه من غير ذي ثقة. فالحديث- عندي- ضعيف موصولاً ومرسلاً. والحديث أخرجه ابن ماجه (1/199) أيضاً، والحاكم (1/169) ، والبيهقي (1/60- 61) عن ابن وهب... به. وقال الشوكاني (1/137) : قال الحافظ: في إسناده نظر. انتهى. وذلك لأن أبا معقل مجهول، وبقية إسناده رجال الصحيح !
قلت: وكذلك قلت فيما سبق: إن بقية رجاله رجال الصحيح . ثم تبين لي أنني كنت واهماً، ومنشأه أنتي ظننت أن عبد العزيز بن مسلم - الراوي عن أبي معقل- أنه القسْملِي، وهو من رجال الشيخين ؛ فإذا بالحافظ يصرح في ترجمة أبي معقل: أنه ليس به، بل هو الأنصاري. ثم رجعت إلى ترجمة عبد العزيز بن مسلم الأنصاري، فرأيت في شيوخه: أبا
معقل هذا. فتيقنت بوهمي ووهم الشوكاني قبلي فرجعت عنه. والمعصوم من عصمه الله تعالى. ثم إن الأنصاري هذا فيه جهالة، كما قال الذهبي، قال: وقواه بعضهم . وكأنه يعني ابن حبان؛ فقد ذكره في الثقات . وفي التقريب :
مقبول . قلت: ولم يذكر في التهذيب من الرواة عنه غير معاوية بن صالح هذا، ومحمد بن إسحاق.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ کے سر پر ایک قطری پگڑی تھی تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ پگڑی کے نیچے کیے اور سر کے اگلے حصے کا مسح کیا اور پگڑی کو نہ کھولا۔
حدیث حاشیہ:
ملحوظہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں اس میں پگڑی پر مسح کرنے کی صراحت بھی نہیں ہے مگر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے باقی مسح پگڑی پر پورا کیا۔ یہاں عدم ذکر نفی اصل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ پگڑی پر مسح صحیح سنت سے ثابت ہے ۔ جیسے کہ حدیث نمبر146 میں اس کی اجازت گزری ہے اور آگے حدیث نمبر150 میں بھی اس کی صراحت آرہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا، آپ کے سر مبارک پر قطری (یعنی قطر بستی کا بنا ہوا) عمامہ تھا، آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ عمامہ (پگڑی) کے نیچے داخل کیا اور عمامہ (پگڑی) کھولے بغیر اپنے سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik (RA): I saw the Messenger (ﷺ) perform ablution. He had a Qutri turban. He inserted his hand beneath the turban and wiped over the forelock, and did not untie the turban.