تشریح:
1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ہیجان اس غیرت کی بناء پر تھا۔ جو ان کے علم کے مطابق سنت نبویﷺ قراءت سن کر پیدا ہوئی تھی۔
2۔ (سبعة أحرف) سات حروف کی مختلف تاویلات ہیں۔ اور اس سلسلے میں علامہ سیوطی ؒ نے الاتقان میں تیس اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان اقوال میں سے قریب تر قول اور علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب عون المعبود کی ترجیح کے مطابق یہ ہے کہ اس سے وہ لغات اوراسالیب نطق مراد ہیں۔ جو اہم سات قبائل عرب میں مروج تھے۔ ان لوگوں کےلئے اس دور میں کسی دوسرے قبیلے کی لغت اور اسلوب کو قبول کرلینا بعض اسباب کی وجہ سے ازحد مشکل تھا۔ وہ قبائل یہ ہیں۔ حجاز۔ ہذیل۔ ہوازن۔ یمن۔ طے۔ ثقیف اور بنی تمیم۔ اوائل خلافت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان قراءتوں میں اور حروف میں قرآن پڑھا جاتا رہا۔ مگر جب مملکت اسلامیہ کی حدود از حد و سیع ہوگئیں۔ اور عجم کی کثیر تعداد اسلام میں داخل ہوگئیں۔ اور مختلف قراءتوں سے ان کے آپس میں الجھنے کے واقعات میں کثرت آگئی۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگراصحاب حل وعقد کے مشورے سے ایک قراءت (قراءت قریش) پر مصاحف لکھوا کر مملکت میں پھیلا دیئے تاکہ امت قرآن میں اختلاف وافتراق سے محفوظ رہے بلاشبہ ان کا یہ احسان قیامت تک بھلایا نہیں جاسکتا۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے۔ علوم القرآن)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وقد أخرجاه . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القاري.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (1/201/5) . وعنه: البخاري (13/434) ، ومسلم (2/202) ، والنسائي (1/149) ، والطحاوي في المشكل (4/187) ، وأحمد (1/40) . وتابعه عًقَيْلٌ عن الزهري... به: أخرجه البخاري (9/21) . ومعمر: عند مسلم والنسائي، وأحمد (1/24 و 40 و 42) ، والترمذي (2/155) ، وقال: حديث حسن صحيح .