مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1485.
محمد بن کعب قرظی سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیواروں کو (کپڑوں وغیرہ سے) مت ڈھانپو۔ جس شخص نے اپنے بھائی کی کتاب (یا تحریر) میں اس کی اجازت کے بغیر دیکھا وہ آگ میں دیکھتا ہے۔ اللہ سے مانگو تو ہتھیلیاں پھیلا کر مانگو، ہاتھوں کی پشت سے مت مانگو اور جب تم دعا سے فارغ ہو تو انہیں اپنے چہروں پر پھیر لیا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے اور سبھی ضعیف ہیں۔ اور یہ (مذکورہ) سند سب میں اچھی ہے، مگر یہ بھی ضعیف ہے۔
تشریح:
دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث انفراداً ضعیف ہیں مگر بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مجموعی لہاظ سے درجہ حسن تک پہنچتی ہیں۔ (بلوغ المرام، کتاب الجامع، باب الذکر والدعاء، حدیث: 1554) شیخ البانی ؒ اور ہمارے محقق شیخ زبیر علی زئی وغیرہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ لیکن بعض دوسرے شیوخ بعض آثارصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بنیاد پر جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ دعا کے بعد اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ دیکھئے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 609) دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دعائے قنوت بھی ان علماء کے نزدیک دعا ہی ہے۔ بنا بریں ان کے نزدیک ہاتھ پھیرنے کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسکے بعد بھی چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوگا۔ ایک جلیل القدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قنوت وتر میں بھی ہاتھ پھیرنے کا عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ (قیام اللیل للمروزي، ص: 236 و مسائل الإمام أحمد، روایة ابن عبد اللہ، ج:2۔ص:300) تاہم دعائے قنوت وتر چونکہ نماز کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے دعائے قنوت وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس کا اثبات حدیث سے ہوتا ہے نہ عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وضعْفُه ظاهر؛ فإن الراي عن محمد بن كعب لم يُسم، ومن دونه مجهولان. إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا عبد الملك بن محمد بن أيمن...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ مسلسل بالمجهولين. أما الراوي عن محمد بن كعب فظاهر. وأما عبد الله بن يعقوب بن إسحاق- وهو- المدني، فقال الذهبي: لا أعرفه وقال الحافظ: مجهول الحال . وعبد الملك بن محمد بن أيمن حِجازِي. قال الحافظ: مجهول . والحديث أخرجه الحاكم (4/269- 270) من طريق محمد بن معاوية: ثنا مُصادف بن زياد المديني- قال: وأثنى عليه خيراً- قال: سمعت محمد بن كعب القرظي... فذكره نحوه دون قوله: سلوا الله... . وسكت عليه الحاكم! وقال الذهبي- وأخرجه (1/536) من طريق صالح بن حيان عن محمد بن كعب... بالشطر الأخير فقط-: محمد بن معاوية النيسابوري: كذبه الدارقطني؛ فبطل الحديث .
قلت: ومصادف بن زياد مجهول- كما في الميزان -، ولعله هو شيخ عبد الله بن يعقوب بن إسحاق؛ الذي لم يُسمّ في روايه المصنف.
محمد بن کعب قرظی سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیواروں کو (کپڑوں وغیرہ سے) مت ڈھانپو۔ جس شخص نے اپنے بھائی کی کتاب (یا تحریر) میں اس کی اجازت کے بغیر دیکھا وہ آگ میں دیکھتا ہے۔ اللہ سے مانگو تو ہتھیلیاں پھیلا کر مانگو، ہاتھوں کی پشت سے مت مانگو اور جب تم دعا سے فارغ ہو تو انہیں اپنے چہروں پر پھیر لیا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے اور سبھی ضعیف ہیں۔ اور یہ (مذکورہ) سند سب میں اچھی ہے، مگر یہ بھی ضعیف ہے۔
حدیث حاشیہ:
دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث انفراداً ضعیف ہیں مگر بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مجموعی لہاظ سے درجہ حسن تک پہنچتی ہیں۔ (بلوغ المرام، کتاب الجامع، باب الذکر والدعاء، حدیث: 1554) شیخ البانی ؒ اور ہمارے محقق شیخ زبیر علی زئی وغیرہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ لیکن بعض دوسرے شیوخ بعض آثارصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بنیاد پر جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ دعا کے بعد اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ دیکھئے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 609) دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دعائے قنوت بھی ان علماء کے نزدیک دعا ہی ہے۔ بنا بریں ان کے نزدیک ہاتھ پھیرنے کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسکے بعد بھی چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوگا۔ ایک جلیل القدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قنوت وتر میں بھی ہاتھ پھیرنے کا عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ (قیام اللیل للمروزي، ص: 236 و مسائل الإمام أحمد، روایة ابن عبد اللہ، ج:2۔ص:300) تاہم دعائے قنوت وتر چونکہ نماز کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے دعائے قنوت وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس کا اثبات حدیث سے ہوتا ہے نہ عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو.“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Do not cover the walls. He who sees the letter of his brother without his permission, sees Hell-fire. Supplicate Allah with the palms of your hands; do not supplicate Him with their backs upwards. When you finish supplication, wipe your faces with them. Abu Dawud said: This tradition has been transmitted through a different chains by Muhammad b. Ka'b; all of them are weak. The chain I have narrated is best of them; but it is also weak.