Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Disliking Of Speech While Relieving Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
15.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے ’’دو شخص اس طرح پاخانے کے لیے نہ نکلیں کہ اپنی شرمگاہیں کھولے پاخانہ کر رہے ہوں اور باتیں بھی کیے جا رہے ہوں، بلاشبہ اللہ عزوجل اس بات پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار نے مسند بیان کیا ہے۔
تشریح:
فائدہ: یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے قضائے حاجت کے وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنی شرمگاہیں کھولنے اور باہم گفتگو کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، جیسے حدیث ہے: ’’مرد، مرد کی شرمگاہ اور عورت، عورت کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:338) دوسری حدیث میں ہے: ’’ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا جب کہ آپ پیشاب کررہے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔‘‘(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 370) حالانکہ سلام کا جواب دینا ضروری ہے، اس کے باوجود آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب سلام کاجواب دینا پسند نہیں، تو دوسری باتیں کرنا کس طرح جائز ہوگا؟ غالباً اسی وجہ سے بعض علماء نے ابوداؤد کی زیربحث حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الموسوعة الحديثة، مسند الامام احمد، ج:17، حدیث:11310۔ صحیح الترغیب، 1۔175)
الحکم التفصیلی:
(قلت: يشير بذلك إلى ضعف الحديث؛ فقد قال الأجريُ عن أبي داود: عكرمة بن عمار ثقة، وفي حديثه عن يحيى بن أبي كثير اضطراب (نقله الحافظ في التهذيب ، ونقل مثله عن الأئمة المحققين، كأحمد وابن معين والبخاري وغيرهم. واعتمد عليه في التقريب ، فقال: صدوق يغلط، وفي روايته عن يحيى بن أبي كثير اضطراب؛ ولم يكن له كتاب = وأجاب المنذري في مختصره بما لا طائل تحته، فقال: وعكرمة: هو أبو عمار عكرمة بن عمار العجْلي اليمامي، وقد احتج به مسلم فما صحيحه ، وضغف بعض الحفاظ حديث عكرمَة هذا عن يحيى بن أبي كثير، وقد أخرج مسلم حديثه عن يحيى بن أبي كثير، واستشهد البخاري بحديثه عن يحيى بن أبي كثير ! قلت بأنه لا طائل تحته؛ لأنه إذا ثبت بأنه مضطرب الحديث عن ابن أبي كثير- بشهادة أولئك الأئمة-؛ فما ينفعه احتجاج مسلم به؛ لأسباب كثيرة، منها: أنه يحتمل أنه لم يثبت ذلك عند مسلم، فاحتج به. وأما بعد ثبوته فلا يجوز الاحتجاج به، كما لا يخفى! على أن المنذري رحمه الله قد انشغل ذهنه بالتعقب؛ فذهل بذلك عن علة أخرى في الحديث، قادحة فما الاحتجاج به، تنبه هو لها في كتاب آخر، ألا وهو الترغيب ، فقال فيه - بعد أن عزاه لأبي داود وابن ماجه وابن خزيمة في صحيحه -: رووه كلهم من رواية هلال بن عياض- أو عياض بن هلال- عن أبي سعيد، وعياض هذا روى له أصحاب السنن ؛ ولا أعرفه بجرح ولا بعدالة، وهو في عداد المجهولين . وكذلك قال الذهبي في الميزان : لا يُعرف، ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي كثير . وقال الحافظ فما التقريب :إنه مجهول .)) . وأعئَه المنذري وابن التركماني بجهالة هلال بن عياض هذا) .
(*) كرّر الرقم هنا عمداً بسبب نقل هذا الحديث من الضعيف إلى هنا حسبما أشار الشيخ رحمه الله في أصله (انظرص 44) .
إسناده: حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة: حدثنا ابن مهدي: حدثنا عكرمة بن عمار. والحديث أخرجه ابن ماجه أيضا (1/142) ، والحاكم (1/157- 158) ، والبيهقي (1/99- 100) من طرق عن عكرمة، فقال بعضهم: هلال بن
عياض- كما في رواية أبي داود-، وقال بعضهم: عياض بن هلال- على القلب-، وبعضهم قال: عياض بن عبد الله.
وهذا اضطراب شديد؛ مما يوهن الحديث؛ دان كان البيهقي روى عن ابن خزيمة أن الصحيح من ذلك قول من قال: عياض بن هلال. قال ابن خزيمة: وأحسب الوهم فيه عن عكرمة بن عمار حين قال: عن هلال بن عياض !
فقد تعقبه ابن التركماني في الجوهر النقي بقوله: قلت: كيف يتعين أن يكون الوهم فيه عن عكرمة؛ وهو مذكور في هذا السند الذي هو فيه على الصحيح، بل يحتمل أن يكون الوهم من غيره. وقد ذكر صاحب الإمام أن أبان بن يزيد رواه أيضا عن يحيى بن أبي كثير فقال: هلال ابن عياض؛ فتابع أبان عكرمة على ذلك، وابن القطان أحال الاضطراب في اسمه على يحيى بن أبي كثير. ثم ذكر البيهقي عن أبي داود أنه قال: لم يسنده إلا عكرمة. قلت: تقدم قريباً أن أبان تابعه . قال: وبقي فيه علل لم يذكرها؛ منها: أنه سكت عن عكرمة هنا، وتكلم فيه كثيراً في (باب مس الفرج بظهر الكف) ، وفي (باب الكسر بالماء) . ومنها: أن راوي الحديث عن الخدري لا يعرف، ولا يحصل من أمره شيء. ومنها: الاضطراب في مق الحديث، كما هو مبين في كتاب ابن القطان. وأخرجه النسائي من حديث عكرمة عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة . قلت: ومن حديث أبي هريرة: رواه الطبراني في الأوسط . وزعم الهيثمي في المجمع (1/207) : أن رجاله موثقون ! وصرح المنذري في الترغيب (1/85) : بأن إسناده لين . فأصاب؛ لأنه- كما ترى- مداره على عكرمة عن ابن أبي كثير؛ وهو ضعيف عنه، كما سبق. وقد خالفه الأوزاعما- وهو الثقة الحجة-؛ فرواه عن يحيى بن أبي كثير عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مرسلاً معضلا. أخرجه البيهقي (1/100) (وقد رجحه أبو حاتم، فقال: الصحيح حديث الأوزاعي؛ وحديث عكرمة وهم ؛ كما في العلل (رقم 88) .
وبالجملة؛ فالحديث ضعيف لا يصح؛ لاضطرابه وجهالة راويه موصولاً، وانقطاعه وتجرده عن شاهد يقويه. (تنبيه) : قال في عون المعبود : وفي بعض النسخ- بعد قوله: إلا عكرمة - هذه العبارة: ثنا أبان: ثنا يحيى... بهذا؛ يعني: حديث عكرمة بن عمار انتهى. قلت: ليست هذه العبارة للمؤلف أصلاً؛ لأن أبا داود ذكر أنه لم يسنده إلا عكرمة، فلم يقف عليه أبو داود مسنداً من غير رواية عكرمة، فأراد ملحق هذه العبارة الاستدراك على أبي داود؛ بأنه قد أسنده عن يحيى بن أبي كثير: أبان بن يزيد العطار. ولكن لم أقف على نسبة هذه العبارة لأحد من الأئمة ! قلت: قد سبق نسبتها إلى صاحب الإمام ؛ وهو ابن دقيق العيد رحمه الله. وقد جاءت هذه العبارة في النسخة المطبوعة في المطبعة التازية بمصر. ومما يدل على أنها ليست من أبي داود: أن أبان بن يزيد ليس من شيوخه؛ بل إنما يروي عنه أبو داود بالواسطة. (تنبيه ثان) : ينبغي أن لا تغترَّ بتصحيح الحاكم للحديث؛ لما عُرف من تساهله؛ لا سيما بعد بيان ما فيه من العلل! ولا بموافقة الذهبي له، بعد أن نقلنا لك عنه أن بعض رواته لا يعرف! وكثيراً ما ترى الذهبي يوافق الحاكم في تصحيحه؛ خطأ منهما، وفيها كثير مما يصرح الذهبي نفسه في الميزان وغيره بضعفه! ولو أردنا أن نتتبع ذلك عليه؛ لجاءفي كتاب مستقل، وسيأتيك بعض- أو كثير- من ذلك في هذا الكتاب؛ إن شاء الله تعالى(*) كان هذا الحديث في الضعيف ، فعلق الشيخ رحمه الله على أوله- في أصله بخطه- قائلاً: بلى (الصحيح) ا ولم يبيِّن سبب نقله ههنا! لكن قد قال في صحيح الترغيب والترهيب، (1/175- الطبعة الأخيرة) - بعد أن نقل تجهيل المنذري لراويه-: لكن له شاهد من غيرطريقه عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه؛ خرجته- من أجله- في الصحبحة (3120) ، ولذلك أوردنه في هذا الصحيح ... ؛ فافتضى البيان. (الناشر) .) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے ’’دو شخص اس طرح پاخانے کے لیے نہ نکلیں کہ اپنی شرمگاہیں کھولے پاخانہ کر رہے ہوں اور باتیں بھی کیے جا رہے ہوں، بلاشبہ اللہ عزوجل اس بات پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار نے مسند بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے قضائے حاجت کے وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنی شرمگاہیں کھولنے اور باہم گفتگو کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، جیسے حدیث ہے: ’’مرد، مرد کی شرمگاہ اور عورت، عورت کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:338) دوسری حدیث میں ہے: ’’ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا جب کہ آپ پیشاب کررہے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔‘‘(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 370) حالانکہ سلام کا جواب دینا ضروری ہے، اس کے باوجود آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب سلام کاجواب دینا پسند نہیں، تو دوسری باتیں کرنا کس طرح جائز ہوگا؟ غالباً اسی وجہ سے بعض علماء نے ابوداؤد کی زیربحث حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الموسوعة الحديثة، مسند الامام احمد، ج:17، حدیث:11310۔ صحیح الترغیب، 1۔175)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ’’دو آدمی قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت شرمگاہ کھولے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔‘‘ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عکرمہ بن عمار کے علاوہ کسی اور نے مسنداً ( مرفوعاً ) روایت نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: When two persons go together for relieving themselves uncovering their private parts and talking together, Allah, the Great and Majestic, becomes wrathful at this (action). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has been narrated only by 'Ikrimah b. 'Ammar.