Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wiping Over The Khuff)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
154.
سیدنا جریر ؓ نے (ایک بار) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا اور کہا: میرے لیے مسح سے کیا چیز مانع ہے؟ جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ مسح کا حکم سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے۔ تو سیدنا جریر ؓ نے کیا: میں تو اسلام ہی سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) حضرت جریر رضی اللہ عنہ سن دس ہجری کے شروع میں مسلمان ہوئے ہیں اور آیت وضو ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ﴾ سورۂ مائدہ کی چھٹی آیت ہے۔ اس میں سر کے مسح کا ذکر ہے موزوں کا نہیں بلکہ پاؤں دھونے کاحکم ہے۔ تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہے۔ جریر رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ میں اس سورت کے نزول کے بعد اسلام لایا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور موزوں پر مسح کرتے خود دیکھا ہے لہٰذا یہ عمل بلاشبہ صحیح، جائز اور مسنون ہے۔ منسوخ سمجھنا درست نہیں۔ شیعہ اور خوارج کے علاوہ اور کوئی اس کا منکر نہیں ہے۔ (2) صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ اصول اٹل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسر اور مبین ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشادہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ ’’اور ہم نے تمہاری طرف یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جوان کی طرف نازل کیا گيا ہے بالوضاحت بیان کردیں۔‘‘
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه ابن خزيمة والحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا علي بن الحسين الدِّرْهَمِيُ: ثنا ابن داود عن بُكَيْرِ بن عامر عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير. وهذا إسناد حسن في المتابعات، رجاله كلهم ثقات؛ غير بكير بن عامر؛ وهو مختلف فيه. وقد قال الآجري عن المؤلف: ليس بالمتروك . وقال ابن عدي: ليس كثير الرواية ، ورواياته قليلة، ولم أجد له متناً منكراً، وهو ممن يكتب حديثه . والحديث أخرجه الحاكم (1/169) من طريق جعفر بن أحمد بن نصر: ثنا علي بن الحسين الدرهمي: ثنا عبد الله بن داود... به. ثمّ أخرجه، ومن طريقه البيهقي (1/270) من طريق أبي الحسن محمد بن غسان القزاز: ثنا عبد الله بن داود... به. وقال الحاكم: حديث صحيح؛ وبكير بن عامر العجلي كوفي ثقة عزيز الحديث، يجمع حديثه في ثقات الكوفيين ! ووافقه الذهبي. قال الزيلعي (1/162) : بهذا السند والمتن؛ رواه ابن خزيمة في صحيحه ... . وللحديث طريق أخرى: عند الدارقطني (71) ، والبيهقي (1/273 و 274) عن شهر بن حوشب عن جرير بن عبد الله... به. فهذا مما يقوّي الطريق الأولى؛ فيكون الحديث حسناً. وهو في الصحيحبن
وغيرهما بنحوه؛ دون قوله: قالوا... إلخ.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا جریر ؓ نے (ایک بار) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا اور کہا: میرے لیے مسح سے کیا چیز مانع ہے؟ جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ مسح کا حکم سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے۔ تو سیدنا جریر ؓ نے کیا: میں تو اسلام ہی سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) حضرت جریر رضی اللہ عنہ سن دس ہجری کے شروع میں مسلمان ہوئے ہیں اور آیت وضو ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ﴾ سورۂ مائدہ کی چھٹی آیت ہے۔ اس میں سر کے مسح کا ذکر ہے موزوں کا نہیں بلکہ پاؤں دھونے کاحکم ہے۔ تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہے۔ جریر رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ میں اس سورت کے نزول کے بعد اسلام لایا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور موزوں پر مسح کرتے خود دیکھا ہے لہٰذا یہ عمل بلاشبہ صحیح، جائز اور مسنون ہے۔ منسوخ سمجھنا درست نہیں۔ شیعہ اور خوارج کے علاوہ اور کوئی اس کا منکر نہیں ہے۔ (2) صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ اصول اٹل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسر اور مبین ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشادہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ ’’اور ہم نے تمہاری طرف یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جوان کی طرف نازل کیا گيا ہے بالوضاحت بیان کردیں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوزرعہ بن عمرو بن جریر کہتے ہیں کہ جریر ؓ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا تو دونوں موزوں پر مسح کیا اور کہا کہ مجھے مسح کرنے سے کیا چیز روک سکتی ہے جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (موزوں پر) مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس پر لوگوں نے کہا: آپ ﷺ کا یہ فعل سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہو گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں نے سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد ہی اسلام قبول کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Zur’ah b. ‘Amr b. Jarir said: Jarir urinated. He then performed ablution and wiped over the socks. He said: What can prevent me from wiping (over the socks); I saw the Messenger of Allah (doing so). They (the people) said: This (action of yours) might be valid before the revelation of Surat al-Ma’idah. He replied: I embraced Islam after the revelation of Surat al-Ma’idah.