مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1544.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں محتاجی سے، قلت سے اور ذلت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں ظلم کا ارتکاب کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔“
تشریح:
’’فقر‘‘ دو طرح سے ہوتا ہے، مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے برعکس انسان ’’حرص‘‘ کا مریض ہو یہ تو بہت ہی قبیح خصلت ہے۔ نیز فقیری اور غریبی کی یہ کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کہ لازمی واجبات بھی ادا نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ ’’قلت‘‘ سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ’’ذلت‘‘ یہ کہ انسان عصیان کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده جيد، وصححه ابن حبان، وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أخبرنا إسحاق بن عبد الله عن سعيد بن يسار عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير حماد- وهو ابن سلمة- فهو من رجال مسلم. وإسحاق بن عبد الله: هو ابن أبي طلحة. والحديث أخرجه النسائي، وابن حبان (2443) ، والحاكم (1/540) ، وقال: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي وغيرهما، وهو مخرج في مصادر عدة لي، تراجع في صحيح الجامع الصغير (1298) .
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ» ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں محتاجی سے، قلت سے اور ذلت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں ظلم کا ارتکاب کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
’’فقر‘‘ دو طرح سے ہوتا ہے، مال کا یا دل کا۔ انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے برعکس انسان ’’حرص‘‘ کا مریض ہو یہ تو بہت ہی قبیح خصلت ہے۔ نیز فقیری اور غریبی کی یہ کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کہ لازمی واجبات بھی ادا نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ ’’قلت‘‘ سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ’’ذلت‘‘ یہ کہ انسان عصیان کا مرتکب ہو کر اللہ کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا کوئی بھی صورت ممدوح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ» ”اے اللہ! میں فقر، قلت مال اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: بعض حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور مسکنت کو طلب کیا ہے اور بعض میں اس سے پناہ مانگی ہے، مرغوب و مطلوب اور پسندیدہ فقر وہ ہے جس میں مال کی کمی ہو لیکن دل غنی ہو، اور دنیا کی حرص و لالچ نہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فقر سے پناہ مانگی ہے جس میں آدمی واجبی ضروریات زندگی کے حاصل کرنے سے عاجز ہو، اور جس سے عبادت میں خلل پڑتا ہو، اور قلت سے مراد نیکیوں کی کمی ہے نہ کہ مال کی، یا مال کی اتنی کمی ہے جو قوت لایموت اور ناگزیر ضرورتوں کو بھی کافی نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to say: "O Allah, I seek refuge in Thee from poverty", lack and abasement, and I seek refuge in Thee lest I cause or suffer wrong".