Abu-Daud:
Zakat (Kitab Al-Zakat)
(Chapter: Property On Which Zakat Is Payable)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1558.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔ اور پانچ اوقیہ (چاندی) سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔ اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکوٰۃ نہیں۔“
تشریح:
(1) سونے چاندی، مال مویشی اور دیگر اجناس کے لیے مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے۔ ویسے کوئی دینا چاہے تو صدقہ ہے اور محبوب عمل ہے۔ (2) ایک اوقیہ میں چالیس درہم اور ایک درہم تقریباً 2.975 گرام چاندی کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام ، اور پانچ اوقیہ چاندی کا وزن پانچ سو پچانوے گرام ہوا۔ جس کا وزن تولہ کے حساب سے 51 تولہ (اور سابقہ علماء کے حساب سے 52 ½ تولہ ) ہوتا ہے۔ (3) ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے، اور ایک صاع میں چار مد۔ ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے۔ اس حساب سے پانچ وسق کا کل سات سو پچاس کلو ہو جائے گا۔ یعنی تقریباً 19من۔ زکوۃ کی ادائیگی میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ زکوۃ کس کس مال پر فرض ہے؟ سنن ابوداؤد میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے سونا‘ چاندی‘ چرنے والے اونٹ گائیں بھیڑ اور بکریوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ زرعی اجناس میں جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے‘ اسے عشر کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وہ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں جن میں قابل زکوۃ (عشر) اجناس کا تفصیل سے ذکر نہیں۔ البتہ یہ وضاحت ہے کہ جو کھیتیاں بارش‘ دریاؤں‘ چشموں یا زمین کی رطوبت سے سیراب ہوتی ہیں ان کی زکوۃ عشر یعنی دسواں حصہ ہے اور جن کو اونٹوں کے ذریعے سے (رہٹ چلا کر یا اونٹوں پر پانی لاد کر)سیراب کیا جاتا ہے ان کی زکوۃ (نصف عشر) یعنی بیسواں حصہ ہے۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زرعی اجناس پر زکوۃ‘ عشر یا نصف عشر ہے۔ اختلاف اجناس کے حوالے سے امام ابوحنیفہ گھاس‘ ایندھن اور بے ثمر درختوں کو چھوڑ کر زمین سے اگائی جانے والی ہر چیز پر عشر کے قائل ہیں۔ انہوں نے حضرت جابر ؓ کی روایت ’’جو کھیتوں بارش، دریاؤں اور چشموں سے سیراب ہوں ان میں عشر اور جن کی آبپاشی اونٹوں کے ذریعے سے کی جائے ان میں نصف عشر ہے۔‘‘ کے الفاظ میں پائے جانے والے عموم سے استدلال کیا ہے۔ علاوہ ازیں وہ قرآنی آیت: ﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ﴾(البقرة:267 ) کےعموم سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہہ زمیں کی پیدا وار تھوڑی ہو یا زیادہ، اس میں عشر یا نصف عشر ہوگا۔ حالانکہ اس عموم کی تخصیص حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ 19 من سےکم پیداوار عشر سے مستثنی ہے۔ ان کے شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد صرف ان اجناس پر زکوۃ ضروری سمجھتے ہیں جو آسمانی سال تک باقی رہ سکتی ہیں اوران کا لین دین ناپ سے ہوتا ہو یا وزن سے، ان کے مطابق ہر قسم کے غلے، شکر، کپاس وغیرہ پر عشر دینا ہو گا۔ امام مالک انسان کی اگائی ہوئی تمام ایسی رزعی اجناس پر عشر ضروری سمجھتے تھے جو خشک کرکے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ امام احمد خشک ہونے والے پھل اور ہر قسم کے بیجوں پر زکوۃ کے قائل تھے۔ جلیل القدر فقہائے تابعین امام حسن بصری، امام شعبی، موسیٰ بن طلحہ اور مجاہد صرف گندم، جو، کھجور اور کشمش میں عشر کے قائل ہیں جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے خوج لیا ہے۔ امام بیہقی نے ان تابعین کے حوالے سے وہ ساری روایات ذکر کی ہین جن میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ان اشیاء میں عشر لینے کا حکم دیا ہے۔ یہ روایات مرسل ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ بن طلحہ نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ کی وہ تحریر موجود ہے جو آپ نے لکھوا کر حضرت معاذ بن جبلؓ کوعطا فرمائی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عشر ان چار چیزوں میں ہے۔ ان سار ی روایات کو ذکر کر کے امام بیہقی کہتے ہیں: ’’یہ تمام روایات مرسل ہیں لیکن متعدد اسانید سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت ابو بردہ ؓ کے طریق سے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے جو انہی چار چیزوں کے عشر کے بارے میں ہے۔ (السنن الکبری للبیھقي‘ باب الصدقة فیما یزرعه الآدمیون ....) ابو بردہ ؓ والی روایت کی صحت کے بارے میں امام بیہقی کا فیصلہ ہے: [رواته ثقات وهو متصل] ’’یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔‘‘ (نيل الأوطار:الزکوة‘ باب زکوة الزرع والثمار ) امام شافعی نے انہی چار چیزوں پر قیاس کر کے یہ کہا ہے: [عشر ما یقات و یدخر] ’’عشر ان بنیادی غذائی اجناس پر ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ گندم، جو، کھجور، کشمش کی طرح جن علاقوں میں چاول وغیرہ بنیادی غذائی جنس ہیں وہاں ان پر عشر ہو گا۔ کپاس اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء(cash crops) اور تازه سبزياں پر اگرچہ براہ راست عشر نہیں لیکن ان کی آمدنی کے حوالے سے اگر نصاب اور مدت نصاب مکمل ہو جائے تو زکوۃ کی ادائیگی ضرور ہو گی۔ اسی طرح چرنے والے (سائمہ) جانوروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بنا بریں ان کی زکوۃ آمدنی پر ہوگی۔ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کےعلماء نے کرنسی توٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکوۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء ومساکین کا فائدہ زیادہ ہے۔ اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکوۃ دینے والوں میں سے نکل جائیں گے۔ مثال کے طور پر جس کے پاس 75ہزار سے کم فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے، وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا، کیونکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت (10ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) 75ہزار ہو گی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارانقصان غرباء مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف راجح لگتا ہے۔ بہر حال یہ اجتہادی مسئلہ ہے، اور دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہوگا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں 75 ہزار روپے فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا اور اس سے کم رقم رکھنے والا شخص زکوۃ سےمستثنی ہوگا۔ رسول اللہﷺ کے دور میں اور صدیوں بعد تک قیمتی پتھروں، جواہرات اور موتیوں کا استعمال دنیا کے بہت سے حصوں میں زینت اور تفاخر کے لیے تو تھا، قدر یا مالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ سونا چاندی ہی تھے۔ جواہرات کے کھرے کھوٹے ہونے کی پہچان چونکہ عام تاجر کے بس میں نہ تھی اور ان کی قیمتی کے تعین کا کوئی ایک باقاعدہ معیار بھی موجود نہ تھا۔ مختلف ماہرین کی رائے قیمتوں کےبارے میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی تھی۔ سونے چاندی کی طرح معیاری ٹیکسالوں میں ڈھال کر ان کو درہم و دینار کی شکل بھی نہ دی جا سکتی تھی اس لیے یہ کرنسی یا مالیت کے تحفظ کے لیے مناسب نہ تھے۔ مال تجارت کے طور پر ان کی زکوۃ تھی البتہ براہ راست ان پر زکوۃ کی وصولی ممکن نہ تھی۔ لیکن آج کل سائنسی بنیادوں پر ان کی پہچان، قیمت کا تعین اور اس کے لیے قابل قبول معیار سب کچھ آسان ہو گیا ہے۔ ان کی باقاعدہ منڈیاں قائم ہو گئی ہیں اور ان خوبیوں کی وجہ سے یہ زیب و زینت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالیت قدر کے تحفظ، ذخائر اور بنکوں میں نوٹ جاری کرنے کی غرض سے محفوظ ضمانتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ سے بچنے کے لیے اپنے مالیاتی اثاثے جواہرات کی صورت میں محفوظ کرنے شروع کر دیں۔ امیر خواتین تو اب سونے چاندی کے بجائے ان سے کئی گنا زیادہ قیمتی جواہر کو زیب وزینت اور اثاثوں سے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگی ہیں ان پر زکوۃ بھی نہیں دینی پڑتی۔ یہ صورت حال فقراء اور مستحقین زکوۃ کے مفاد کے خلاف ہے۔ جس طرح حضرت عمر ؓ نے عنبر کے بارے میں، اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی، صحابہ ؓ سے مشورہ کیا تھا اور اس کی روشنی میں خمس کی وصولی کا فیصلہ فرمایا تھا۔ (الموسوعة الفقهية، كويت، زكوة باب زكوة المستخرج من البحار) مزید یہ کہ حضرت عمر ؓ کے پاس شام سے کچھ لوگ آئے کہ ہمیں گھوڑوں اور غلاموں کی صورت میں کچھ مال ملا ہے، ہم ان کی زکوۃ ادا کر کے اسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کرکے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے، زکوۃ لینے کا فیصلہ کیا۔ (مستدرك حاکم ، الزکوة‘ حدیث:1456) اسی طرح اب علماء اگر قیمتی پتھروں کے حوالے سے غور کریں اور متفقہ طور پر ان کی زکوۃ کے بارے میں فیصلہ کریں تو یہ عین مصلحت اسلامی کا تقاضا ہو گا۔ یاد رہے کہ پتھروں پر زکوۃ نہ ہونے کی جو مرفوع روایت عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ضعیف ہے، اس لیے قابل اعتبار نہیں۔ (السنن الکبری للبیھقي، الزکوة‘ ما لا زکوة فیه من الجوهر غير الذهب والفضة)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة قال : قرأت على مالك بن أنس عن عمرو ابن يحيى المازني عن أبيه قال: سمعت أبا سعيد الخدري يقول...
قلت: وهدْا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه. والحديث أخرجه مالك في الموطأ ... بإسناده هنا ومتنه. وأخرجه عنه: البخاري وغيره. ورواه سائر الستة وغيرهم من طرق أخرى عن المازني... به؛ وهو مخرج عندي في إرواء الغليل (800) ؛ فلا داعي للإعادة. لكن لا بد هنا مما التنبيه على فائدة لم نتمكن من ذكرها هناك، وهي أن ابن حبان أخرج الحديث في صحيحه (3264 و 3265 و 3270 و 3271) من طرق عن عمرو بن يحيى... به؛ وفي بعض الطرق بلفظ: لا يَحِل في البُر والتمر زكاة حتى يبلغ خمسةَ أوسق ، ولا يَحِل في الوَرِقِ زكاة حتى يبلغ خَمْسَ أواقٍ، ولا يَحِلُ في الإبل زكاة حتى يبلغً خَمْسَ ذوْد .
قلت: وإسناده صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير شيخ ابن حبان: محمد بن المسيب بن إسحاق، وهو من شيوخ ابن خزيمة أيضا، وهو حافظ بارع؛ كما في تذكرة الحفاظ .
نماز اورز کو ۃ دین کے ایسے رکن ہیں جن کا ہر دور اور ہر مذہب میں آسانی تعلیمات کے پیروکاروں کوحکم دیا گیا ہے۔ گویا یہ دونوں فریقے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں اور دین اسلام نے بھی زکوۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا۔ قرآن مجید میں نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم عموما ساتھ ساتھ ہے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر قرآن کریم نے(اقيمو الصلاة) کے ساتھ (واتوا الزكوة) کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی زکوة کی ہے۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پرنہ کرے’ سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح زکوة بھی شریعت میں اتنا ہی مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار اعراض اور فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ زکوة کی فرضیت مشہور قول کے مطابق ہجرت کےدوسرے سال ہوئی۔
لغوی اعتبار سے زکوة کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک وصاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوة میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوة کی ادا گی سےبقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادا ئیگی سے اس میں غرباء و مساکین کاحق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ جیسے کی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے۔“ (سنن ابی داود، الزكوة، باب في حقوق المال حديث: ۱۲۹۴) قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:) خذمن اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها((التوبة :103)اے پیغمبر!) ان کے بالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اوران کا تزکیہ کردیں‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکوة وصدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے اور اخلاق رزیلہ سے۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خودغرض ’ظالم متکبر’بخیل بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوۃ مال کی شدید محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ہمدردی واخوت ایثار و قربانی اورفضل واحسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور انسان جب اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (ان الحسنات يذهبن السيئات)( هود: ۱۳) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘
زکوة کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوة ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کی واقع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالی فرما دیتا ہے ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا’’صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔‘‘(صحيح مسلم،البر،باب استحباب العفووالتواضع،حديث:2588)
مذکورہ گزارشات کے بعد زکوۃ وصدقات کے کچھ فضائل و برکات بیان کیے جاتے ہیں تا کہ قاری مسئلہ کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکے حدیث قدسی ہے’’ اللہ تعالی فرماتا ہے (اے ابن آدم!) تو (میرےضرورت مند بندوں پر) خرچ کر میں (خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔“ (صحيح البخارى ، التوحيد،باب:35،حديث:7496)
اس کی بابت حضرت اسماءؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا( اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھو ،اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کرو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر بند کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہی معاملہ کرے گا۔ اس لیے جتنی توفیق ہوفراخ دلی سےخرچ کرتی رہو۔‘‘(صحيح البخارى ، الهبة، باب: 5، حديث: 2591، والزكوة، باب: 22، حديث: 1434، وصحيح مسلم، الزكوة، باب الحث على الانفاق ، حديث: 1029)
صدقہ کی بابت نبیﷺ سے پوچھا گیا’ کون ساصدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’زیاده اجر وثواب والاصدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچنے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو( اللہ کےلیے) دے دیا جائے‘درآں حالیکہ اس وقت وہ مال ( تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (وارثوں) کا ہو چکا ہو ۔(صحيح مسلم، الزكوة، باب بيان ان افضل الصدقة صدقة الصحيح الصحيح ، حديث: 1032)
ان فضائل و برکات کی پوری اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا پہلو یعنی صدقات و خیرات سے پہلو تہی اور اعراض کی سخت وعید اور اس پر عذاب شدید کی تنبیہ سامنے نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اس نے اس کی زکوة نہ دی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کی شکل میں بنادی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں خت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اپنی دونوں باچھوں سے اس کو پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا: میں تیرا بال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد نبیﷺنے سورة آل عمران کی آیت (۱۸۰) تلاوت فرمائی وہ لوگ جو اللہ کے فضل وکرم سے حاصل کردہ مال میں بخل کرتے ہیں ( زکوۃ ادانہیں کرتے) یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے (نہیں) بلکہ یہ ان کے حق میں ( انجام کے لحاظ سے) بدتر ہے۔ یہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں( اور اس کی زکوہ بھی نہیں نکالتے )قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کے ڈال دیا جائے گا۔‘‘(صحيح البخارى ، الزكوة، باب اثم مانع الزكوة حديث:1403)
حضرت ابوذرسے روایت ہے’ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ یا (فرمایا)قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا (حلف کے الفاظ صحابی کوصحیح یاد نہیں رہے۔) جس آدمی کے پاس بھی کچھ اونٹ گائیں یا بکریاں ہوں وہ ان کا حق (زکوۃ) ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن ان جانوروں سمیت لایا جائے گا یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تاز ہ ہوں گے وہ اسے اپنے پیروں سے روند یں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے جب آخرتک سب گزر جائیں گے تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا ۔“((صحيح البخارى، الزكوة، باب زكوة البقر، حديث:1460)
قرآن کریم کی یہ آیت بھی انہی لوگوں کی وعید میں نازل ہوئی ہے جو اپنے سونے چاندی اوراپنے مال ودولت میں سےزکوۃ نہیں نکالتے۔( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) (التوبۃ:9/34۔35)’’اورجولوگ سوناچاندی بطورخزانہ جمع کرتےہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجیے۔ جس دن کہ ان کی دولت کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا‘پھراس سےان کے ماتھے ‘ان کےپہلو اوران کی پیٹھیں داغی جائیں گی(اورکہاجائےگا)یہ ہے تمہاری وہ دولت جسےتم نے جوڑجوڑ کر رکھا تھا‘پس تم اپنی اس دولت اندوزی کاآج مزاچکھو۔‘‘لیکن اس وعیدسےوہ لوگ خارج ہیں جواپنے مال میں سےزکوۃ نکالتے اورصدقہ خیرات کرتےرہتےہیں۔
اس اخروی عقوبت کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوۃ کی ادائیگی سے اعراض کرتی ہے امساک باراں اور قحط سالی جیسے ابتلاء سے دوچار کر دیتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: "جو قوم زکوة سے انکار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔“ ( (الطبرانى فى الأوسط، حديث: 4577-6788، وصحيح الترغيب للألبانى:1/467)
ایک دوسری روایت میں ہے جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ باران رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔“ (سنن ابن ماجه ، باب العقوبات،حديث:4019، وحسنه الألبانى فى الصحيحة حديث:106-1/216-217)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا مطالبہ صرف ز کوٰۃ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر الله کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن مجید نے اس لیے متعدد مقامات پر زکوۃ‘‘ کی بجائے انفاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے اور زکوۃ اور دیگر صدقات دونوں کو محیط ہے۔(متقين)کی صفات میں بتایاگیا ہے (وممارزقنهم ينفقون) (البقرة:3)’’اوروہ ہمارےدیےہوئے مال میں سے انفاق (خرچ)کرتےہیں۔ ’’نیزفرمایا(يايها الذين امنوا انفقوامن طيبت ماكسبتم) (البقرة :467)’’اےایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ )کرو۔‘‘
زکوۃ وصدقات دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اولین مستحق آدمی کے درجہ بدرجہ اپنے قرابت دار ہیں ۔ قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی جس میں غریب و بے سہارا افراد کی اعانت و دست گیری شامل ہے حقوق العباد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سب سے پہلے آدمی کے والدین ہیں اور دوسرے نمبر پر اس کے دیگر قریب ترین رشتہ دار۔ اگر انسان کے پاس اہل خانہ اور والدین کی کفالت کے بعد کچھ مال بچ رہے تو اسے درجہ بدرجہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اسے شریعت میں صلہ رحمی کہتے ہیں ۔ اس سے دوگنا اجر ملے گا ایک صلہ رحمی کا اور دوسراصدقے کا۔
زکوة اس مال میں سے نکالی جائے جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلا شرکت غیرے ما لک ہو۔
مشترکہ (لمٹیڈ) کمپنیوں میں سے سب کے مجموعی مالوں میں سے بھی سب کی طرف سے زکوۃ نکالی جانی چاہے۔ (ملخص از کتاب ’’زکوٰۃ وعشر‘‘تالیف حافظ صلاح الدین یوسف، مطبوعہ دارالسلام)
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔ اور پانچ اوقیہ (چاندی) سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔ اور پانچ وسق سے کم (غلے) میں زکوٰۃ نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) سونے چاندی، مال مویشی اور دیگر اجناس کے لیے مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے۔ ویسے کوئی دینا چاہے تو صدقہ ہے اور محبوب عمل ہے۔ (2) ایک اوقیہ میں چالیس درہم اور ایک درہم تقریباً 2.975 گرام چاندی کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام ، اور پانچ اوقیہ چاندی کا وزن پانچ سو پچانوے گرام ہوا۔ جس کا وزن تولہ کے حساب سے 51 تولہ (اور سابقہ علماء کے حساب سے 52 ½ تولہ ) ہوتا ہے۔ (3) ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے، اور ایک صاع میں چار مد۔ ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے۔ اس حساب سے پانچ وسق کا کل سات سو پچاس کلو ہو جائے گا۔ یعنی تقریباً 19من۔ زکوۃ کی ادائیگی میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ زکوۃ کس کس مال پر فرض ہے؟ سنن ابوداؤد میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے سونا‘ چاندی‘ چرنے والے اونٹ گائیں بھیڑ اور بکریوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔ زرعی اجناس میں جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے‘ اسے عشر کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وہ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں جن میں قابل زکوۃ (عشر) اجناس کا تفصیل سے ذکر نہیں۔ البتہ یہ وضاحت ہے کہ جو کھیتیاں بارش‘ دریاؤں‘ چشموں یا زمین کی رطوبت سے سیراب ہوتی ہیں ان کی زکوۃ عشر یعنی دسواں حصہ ہے اور جن کو اونٹوں کے ذریعے سے (رہٹ چلا کر یا اونٹوں پر پانی لاد کر)سیراب کیا جاتا ہے ان کی زکوۃ (نصف عشر) یعنی بیسواں حصہ ہے۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زرعی اجناس پر زکوۃ‘ عشر یا نصف عشر ہے۔ اختلاف اجناس کے حوالے سے امام ابوحنیفہ گھاس‘ ایندھن اور بے ثمر درختوں کو چھوڑ کر زمین سے اگائی جانے والی ہر چیز پر عشر کے قائل ہیں۔ انہوں نے حضرت جابر ؓ کی روایت ’’جو کھیتوں بارش، دریاؤں اور چشموں سے سیراب ہوں ان میں عشر اور جن کی آبپاشی اونٹوں کے ذریعے سے کی جائے ان میں نصف عشر ہے۔‘‘ کے الفاظ میں پائے جانے والے عموم سے استدلال کیا ہے۔ علاوہ ازیں وہ قرآنی آیت: ﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ﴾(البقرة:267 ) کےعموم سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہہ زمیں کی پیدا وار تھوڑی ہو یا زیادہ، اس میں عشر یا نصف عشر ہوگا۔ حالانکہ اس عموم کی تخصیص حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ 19 من سےکم پیداوار عشر سے مستثنی ہے۔ ان کے شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد صرف ان اجناس پر زکوۃ ضروری سمجھتے ہیں جو آسمانی سال تک باقی رہ سکتی ہیں اوران کا لین دین ناپ سے ہوتا ہو یا وزن سے، ان کے مطابق ہر قسم کے غلے، شکر، کپاس وغیرہ پر عشر دینا ہو گا۔ امام مالک انسان کی اگائی ہوئی تمام ایسی رزعی اجناس پر عشر ضروری سمجھتے تھے جو خشک کرکے محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ امام احمد خشک ہونے والے پھل اور ہر قسم کے بیجوں پر زکوۃ کے قائل تھے۔ جلیل القدر فقہائے تابعین امام حسن بصری، امام شعبی، موسیٰ بن طلحہ اور مجاہد صرف گندم، جو، کھجور اور کشمش میں عشر کے قائل ہیں جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے خوج لیا ہے۔ امام بیہقی نے ان تابعین کے حوالے سے وہ ساری روایات ذکر کی ہین جن میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ان اشیاء میں عشر لینے کا حکم دیا ہے۔ یہ روایات مرسل ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ بن طلحہ نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ کی وہ تحریر موجود ہے جو آپ نے لکھوا کر حضرت معاذ بن جبلؓ کوعطا فرمائی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عشر ان چار چیزوں میں ہے۔ ان سار ی روایات کو ذکر کر کے امام بیہقی کہتے ہیں: ’’یہ تمام روایات مرسل ہیں لیکن متعدد اسانید سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت ابو بردہ ؓ کے طریق سے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے جو انہی چار چیزوں کے عشر کے بارے میں ہے۔ (السنن الکبری للبیھقي‘ باب الصدقة فیما یزرعه الآدمیون ....) ابو بردہ ؓ والی روایت کی صحت کے بارے میں امام بیہقی کا فیصلہ ہے: [رواته ثقات وهو متصل] ’’یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔‘‘ (نيل الأوطار:الزکوة‘ باب زکوة الزرع والثمار ) امام شافعی نے انہی چار چیزوں پر قیاس کر کے یہ کہا ہے: [عشر ما یقات و یدخر] ’’عشر ان بنیادی غذائی اجناس پر ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ گندم، جو، کھجور، کشمش کی طرح جن علاقوں میں چاول وغیرہ بنیادی غذائی جنس ہیں وہاں ان پر عشر ہو گا۔ کپاس اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء(cash crops) اور تازه سبزياں پر اگرچہ براہ راست عشر نہیں لیکن ان کی آمدنی کے حوالے سے اگر نصاب اور مدت نصاب مکمل ہو جائے تو زکوۃ کی ادائیگی ضرور ہو گی۔ اسی طرح چرنے والے (سائمہ) جانوروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بنا بریں ان کی زکوۃ آمدنی پر ہوگی۔ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کےعلماء نے کرنسی توٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکوۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء ومساکین کا فائدہ زیادہ ہے۔ اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکوۃ دینے والوں میں سے نکل جائیں گے۔ مثال کے طور پر جس کے پاس 75ہزار سے کم فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے، وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہو گا، کیونکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت (10ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) 75ہزار ہو گی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارانقصان غرباء مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف راجح لگتا ہے۔ بہر حال یہ اجتہادی مسئلہ ہے، اور دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہوگا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں 75 ہزار روپے فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا اور اس سے کم رقم رکھنے والا شخص زکوۃ سےمستثنی ہوگا۔ رسول اللہﷺ کے دور میں اور صدیوں بعد تک قیمتی پتھروں، جواہرات اور موتیوں کا استعمال دنیا کے بہت سے حصوں میں زینت اور تفاخر کے لیے تو تھا، قدر یا مالیت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ سونا چاندی ہی تھے۔ جواہرات کے کھرے کھوٹے ہونے کی پہچان چونکہ عام تاجر کے بس میں نہ تھی اور ان کی قیمتی کے تعین کا کوئی ایک باقاعدہ معیار بھی موجود نہ تھا۔ مختلف ماہرین کی رائے قیمتوں کےبارے میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی تھی۔ سونے چاندی کی طرح معیاری ٹیکسالوں میں ڈھال کر ان کو درہم و دینار کی شکل بھی نہ دی جا سکتی تھی اس لیے یہ کرنسی یا مالیت کے تحفظ کے لیے مناسب نہ تھے۔ مال تجارت کے طور پر ان کی زکوۃ تھی البتہ براہ راست ان پر زکوۃ کی وصولی ممکن نہ تھی۔ لیکن آج کل سائنسی بنیادوں پر ان کی پہچان، قیمت کا تعین اور اس کے لیے قابل قبول معیار سب کچھ آسان ہو گیا ہے۔ ان کی باقاعدہ منڈیاں قائم ہو گئی ہیں اور ان خوبیوں کی وجہ سے یہ زیب و زینت کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالیت قدر کے تحفظ، ذخائر اور بنکوں میں نوٹ جاری کرنے کی غرض سے محفوظ ضمانتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ سے بچنے کے لیے اپنے مالیاتی اثاثے جواہرات کی صورت میں محفوظ کرنے شروع کر دیں۔ امیر خواتین تو اب سونے چاندی کے بجائے ان سے کئی گنا زیادہ قیمتی جواہر کو زیب وزینت اور اثاثوں سے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگی ہیں ان پر زکوۃ بھی نہیں دینی پڑتی۔ یہ صورت حال فقراء اور مستحقین زکوۃ کے مفاد کے خلاف ہے۔ جس طرح حضرت عمر ؓ نے عنبر کے بارے میں، اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں کوئی ہدایت موجود نہ تھی، صحابہ ؓ سے مشورہ کیا تھا اور اس کی روشنی میں خمس کی وصولی کا فیصلہ فرمایا تھا۔ (الموسوعة الفقهية، كويت، زكوة باب زكوة المستخرج من البحار) مزید یہ کہ حضرت عمر ؓ کے پاس شام سے کچھ لوگ آئے کہ ہمیں گھوڑوں اور غلاموں کی صورت میں کچھ مال ملا ہے، ہم ان کی زکوۃ ادا کر کے اسے پاک کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کرکے جن میں حضرت علی بھی شامل تھے، زکوۃ لینے کا فیصلہ کیا۔ (مستدرك حاکم ، الزکوة‘ حدیث:1456) اسی طرح اب علماء اگر قیمتی پتھروں کے حوالے سے غور کریں اور متفقہ طور پر ان کی زکوۃ کے بارے میں فیصلہ کریں تو یہ عین مصلحت اسلامی کا تقاضا ہو گا۔ یاد رہے کہ پتھروں پر زکوۃ نہ ہونے کی جو مرفوع روایت عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ضعیف ہے، اس لیے قابل اعتبار نہیں۔ (السنن الکبری للبیھقي، الزکوة‘ ما لا زکوة فیه من الجوهر غير الذهب والفضة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۱؎، پانچ اوقیہ۲؎ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ پانچ وسق۳؎ سے کم (غلے اور پھلوں) میں زکاۃ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہے، اور چاندی کا پانچ اوقیہ، اور غلے اور پھلوں (جیسے کھجور اور کشمش وغیرہ) کا نصاب پانچ وسق ہے، اور سونے کا نصاب دوسری حدیث میں مذکور ہے جو بیس (۲۰) دینار ہے، جس کے ساڑھے سات تولے ہوتے ہیں، یہ چیزیں اگر نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر سال گزر جائے تو سونے اور چاندی میں ہر سال چالیسواں حصہ زکاۃ کا نکالنا ہو گا، اور اگر بغیر کسی محنت و مشقت کے یا پانی کی اجرت صرف کئے بغیر پیداوار ہو تو غلے اور پھلوں میں دسواں حصہ زکاۃ کا نکالنا ہو گا ، اور اگر محنت و مشقت اور پانی کی اجرت لگتی ہو تو بیسواں حصہ نکالنا ہو گا۔ ۲؎: اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (۵۹۵) گرام ہے۔ ۳؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے، موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً (۷۵۰) کیلو گرام یعنی ساڑھے سات کوینٹل ہے۔ اور شیخ عبداللہ البسام نے ایک صاع کو تین کلو گرام بتایا ہے، اس لیے ان کے حساب سے (۹) کونئٹل غلے میں زکاۃ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa’id Al Khudri (RA) reported: That the Apostle of Allaah(صلی اللہ علیہ وسلم) as saying No sadaqah(zakat) is payable on less than five camels, on less than five ounces of silver and on less than five camel loads(wasq).