Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Period (Allowed) For Wiping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
157.
سیدنا خزیمہ بن ثابت ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”موزوں پر مسح کرنے کی مدت مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو منصور بن معتمر نے اپنی سند سے ابراہیم تیمی سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ اگر ہم مسح کی مدت میں اضافہ چاہتے تو آپ اضافہ فرما دیتے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال النووي، وقال الترمذي: حديث حسن، وذكر عن يحيى بن معين أنه صححه . ورواه أبو عوانة وابن حبان في صحيحيهما ) .إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة عن الحكم وحماد عن إبراهيم عن أبي عبد الله الجَدلمِي عن خزيمة بن ثابت. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير أبا عبد الله الجدلي؛ وهو ثقة؛ غير أن فيه انقطاعاً، قال المصنف: إبراهيم- وهو النخعي- لم يسمع من أبي عبد الله الجدلي ! وحفص: هو ابن عمر بن الحارث الحوضي البصري. وحماد: هو ابن أبا سليمان الكوفي؛ وفيه كلام من قبل حفظه؛ لكن حديثه هذا مقرون. وقد جاء الحديث موصولأ، كما سنبينه؛ فهو حديث صحيح. والحديث في مسند الطيالسي (رقم 1219) : ثنا شعبة... به.وأخرجه الطحاوي (1/49) ، وأحمد (5/214) ، والطبراني في معجمه الكبير ، وفي الصغير (ص 238) من طرق عن شعبة... به؛ وقرن في الصغير - مع الحكم وحماد-: مغيرة ومنصوراً. وقد تابعه سفيان- وهو الثوري- عن حماد ومنصور عن إبراهيم... به. أخرجه أحمد. وهشام الدستُوائي عن حماد وحده: أخرجه أحمد والطحاوي. وأخرج البيهقي (1/277) من طريق زائدة بن قدامة قال: سمعت منصوراً يقول: كنا في حجرة إبراهيم النَّخَعِي، ومعنا إبراهيم التيمي، فذكرنا المسح على الخفين، فقال إبراهيم التيمي: تنا عمرو بن ميمون عن أبي عبد الله الجدلي عن خزيمة بن ثابت قال: جعل لنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثلاثاً؛ ولو استزدته لزادنا- يعني: المسح على الخفين للمسافر-. قلت: وإسناد هذه الرواية صحيح؛ وهي تشير إلى ما سبق عن المؤلف أن النخعي لم يسمعه من أبي عبد الله الجدلي. والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه والطحاوي والبيهقي والطيالسي (رقم 1218) وأحمد من طرق عن إبراهيم التيمي عن عمرو بن ميمون عن أبي عبد الله الجدلي... به. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه (1/262) .
وقال الترمذي: وذكِر عن يحيي بن معين أنه صحح حديث خزيمة في المسح .ثم قال: هذا حديث حسن صحيح . ورواه ابن حبان أيضا- كما في التلخيص (2/396) -. وقال النووي: إنه حديث صحيح . قلت: وقد أُعل هذا الحديث بما لا يقدح؛ ولو أردنا بسط للكلام في ذلك لطال؛ فليراجع لذلك نصب الراية (1/175- 177) . وللحديث شواهد كثيرة: من حديث علي بن أبي طالب- في صحيح مسلم ، و أبي عوانة -، وصفوان بن عَسال وأبي بكرة والمغيرة بن شعبة- وهي عند الطحاوي والبيهقي وبعض أصحاب السنن -. وفيها- ما عدا الأول- من الزيادات ما ليس في حديث الباب؛ فأرى من الفائدة ذكرها؛ مع التنبيه على ما لا يصح منها. ففي حديث صفوان: إلا من جنابة؛ ولكن من غائط وبول ونوم . وفي حديث أبي بكرة: إذا تطهر ولبس خفيه . وفي حديث المغيرة: ما لم يخلع . قال البيهقي: تفرد به عمرو بن رديح؛ وليس بالقوي . قلت: وفي معناها ما في بعض طرقه بغير هذا اللفظ عند أحمد بلفظ: ثمّ لم أمش حافياً ؛ وهي ضعيفة أيضا؛ لما سبق بيانه عند الحديث (رقم 139) . وقد صح عن علي رضي الله عنه: أنه مسح على نعليه، ثمّ خلعهما، ثم صلّى. كما سيأتي في الكلام على الحديث (رقم 156) . وهذا يؤيد قول من قال: إنْ نَرع الخفين بعد المسح عليهما لا يضره، ولا يلزمه إعادة وضوء، ولا غسل رجليه، بل هو طاهر كما كان، ويصلي كذلك.
وبه قال الحسن وابن أبي ليلى وجماعة؛ كما في الفتح (1/248) . وإليه ذهب ابن حزم (2/105) . وقال:
وهذه قول طائفة من السلف... ؛ ثمّ روى ذلك عن هشام بن حسان، وعن إبراهيم النخعي. وهذه فائدة تعرضنا لذكرها بالمناسبة، ولقِلَّة ما تراها في كتاب من كتب الفقه المشهورة. (فائدة أخرى) : ظاهر حديث الباب- ومثله الأ حاديث الأخرى-: أن مدة المسح تبتدىء من حين يمسح بعد الحدث. وبه قال الأوزاعي وأبو ثور. قال النووي
في المجموع (1/487) : وهو رواية عن أحمد وداود وهو المختار الراجح دليلاً. واختاره ابن المنذر؛ وحكى نحوه عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه . 146- وفي رواية: ولو استزدناه لزادنا. (قلت: إسناد صحيح، وصححه ابن حبان وأبو عوانة) . إسناده: علقه المصنف فقال: رواه منصور بن المعتمر عن إبراهيم التيمي ... بإسناده: ولو استزدناه لزادنا. وقد وصله الإمام أحمد (5/213) : ثنا أبو عبد الصمد العَمِّي: ثنا منصور: ثنا إبراهيم بن يزيد التيمي عن عمرو بن ميمون عن أبي عبد الله الجدلي عن خزيمة بن ثابت الأنصاري أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: امسحوا على الخفاف ثلاثة أيام . ولو استزدنا لزادنا. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الجدلي؛ وهو ثقة كما سبق في الرواية الأولى. ثم قال أحمد: ثنا سفيان عن منصور... به بلفط: سألنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن المسح على الخفين؟ فرخص للمسافر ثلاثة أيام ولياليهن، والمقيم يوماً وليلة. قال أحمد: سمعته من سفيان مرتين يذكر: للمقيم، ولو أطنب السائل في مسألته لزادهم. وكذلك رواه الطحاوي، وأبو عوانة عن سفيان... به؛ لكن أبا عوانة لم يسق لفظه بتمامه. وقد تابعه سعيد بن مسروق- والد سفيان- الثوري عن إبراهيم التيمي. أخرجه ابن ماجه (1/196) ، وأحمد (5/214 و 215) عن سفيان عن أبيه عن إبراهيم التيمي... به. ولفظه: ولو مضى السائل على مسألته؛ لجعلها خمساً. فقد اتفق على هذه الزيادة- عن التيمي- ثقتان: منصور وسعيد بن مسروق؛
فهي زيادة صحيحه ثابتة؛ وإن كان لا يؤخذ منها حكم زائد على أصل الحديث.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا خزیمہ بن ثابت ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”موزوں پر مسح کرنے کی مدت مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو منصور بن معتمر نے اپنی سند سے ابراہیم تیمی سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ اگر ہم مسح کی مدت میں اضافہ چاہتے تو آپ اضافہ فرما دیتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
خزیمہ بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”موزوں پر مسح کرنے کی مدت مسافر کے لیے تین دن، اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: منصور بن معتمر نے اسے ابراہیم تیمی سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ اگر ہم آپ ﷺ سے (اس مدت کو) بڑھانے کے لیے کہتے تو آپ اسے ہمارے لیے بڑھا دیتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khuzaymah ibn Thabit (RA): The Prophet (ﷺ) said: The time limit for wiping over the socks for a traveller is three days (and three nights) and for a resident it is one day and one night. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Another version adds: Had we requested him to extend (the period of wiping), he would have extended.