Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Another Proof For Wiping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
160.
سیدنا اوس بن ابی اوس ثقفی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو اپنے جوتوں اور قدموں پر مسح کیا۔ عباد بن موسیٰ نے (اپنی روایت میں) یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک قوم کے «كظامة» پر آئے یعنی مقام وضو پر، مگر جناب مسدد نے (اپنی روایت میں) «ميضأة» اور «كظامة» کا ذکر نہیں کیا۔ پھر دونوں مشائخ (مسدد اور عباد بن موسیٰ حدیث کے باقی الفاظ بیان کرنے میں) متفق ہیں ”آپ نے وضو کیا تو اپنے جوتوں اور قدموں پر مسح کیا۔“
تشریح:
فائدہ: بشرط صحت (جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے) یہ روایت سابقہ روایت پر محمول ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ اور ’’قدموں پر مسح‘‘ سے مراد ایسی صورت ہے جس میں جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جوتے یا چپل کی پٹی پر مسح فرمایا جو کہ پاؤں کے اوپر ہوتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه ابن حبان في صحيحه . وصححه ابن القطان من حديث ابن عمر) . إسناده: حدثنا مسدد وعباد بن موسى قالا: ثنا هشيم عن يعلى بن عطاء. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير عطاء والد يحيى؛ قال الحافظ في التهذيب : قال أبو الحسن بن القطان: مجهول الحال، ما روى عنه غير ابنه يعلى. وتبعه الذهبي في الميزان . وأما ابن حبان فذكره في الثقات ، وروى له هذا الحديث . والحديث أخرجه البيهقي (1/286) من طريق المؤلف. وأخرجه أحمد (4/8) : ثنا هشيم... به مختصراً؛ بلفظ: رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أتى كظامة قوم فتوضأ. وأخرجه الطبراني في الكبير (الجزء الأول، وهو في المكتبة الظاهرية تحت رقم (282- حديث) .) قال: حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي: نا عثمان بن أبي شيبة: نا هشيم... به؛ بلفظ:أتى كظامة- يعني: مطهرة-؛ فتوضأ ومسح على قدميه. وهكذا أخرجه الحازمي في الاعتبار (ص 42) من طريق سعيد بن منصور: أنا هشيم... به، وزاد: بالطائف. قال هشيم: كان هذا في أول الإسلام. وقد تابعه شعبة عن يعلى: أخرجه الطبراني قال: حدثنا معاذ بن المثنى: نا مسدد: نا يحيى بن سعيد عن شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن أوس بن أبي أوس قال: رأيت النّبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأ، ومسح على نعليه، وقام إلى الصلاة. وأخرجه أحمد أيضا قال: ثنا يحيى... به؛ لكن وقع في سنده تحريف مطبعي. ثم قال الطبراني: حدثا عبدان بن أحمد: نا زيد بن الحُريش: حدثني يحيى ابن سعيد... به. وأخرجه الحازمي؛ لكن وقع في نسختنا: يحيى بن سعيد عن يعلى بن عطاء ! فكأنه سقط منها شعبة من بينهما. ثمّ قال الحازمي: لا يعرف هذا الحديث مُجَوَداً متصلاً إلا من حديث يعلى بن عطاء، وفيه اختلاف أيضا ! والاختلاف الذي يشير إليه: هو أن حماد بن سلمة رواه عن يعلى بن عطاء عن أوس الثقفي: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضاً ومسح على نعليه.أخرجه الطيالسي (رقم 1113) : ثنا حماد بن سلمة... به. وأخرجه الطحاوي (1/58) ، وأحمد (4/9) ، والطبراني من طرق عن حماد... به، لكنهم خالفوه فجعلوه من (مسند أبي أوس) لا من (مسند ابنه) فقالوا: عن أوس بن أبي أوس قال: رأيت أبي يوماً توضأ فمسح على النعلين. فقلت له: أتمسح عليهما؟ فقال: هكذا رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفعل. وكذلك رواه شريك عن يعلى بن عطاء عن أوس بن أبي أوس قال: كنت مع أبي على ماء من مياه العرب، فتوضأ ومسح على نعليه، فقيل له؟ فقال: ما أزيدك على ما رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصنع. أخرجه الطحاوي وأحمد والطبراني من طرق عنه. فقد اتفق حماد- في رواية الأكثرين- وشريك على إسقاط عطاء من الإسناد، وعلى أن الحديث من (مسند أبي أوس) ليس من (مسند ابنه أوس) ؛ خلافاً لرواية هشيم وشعبة، وهي عندي أصح وأولى؛ لأنهما أوثق وأحفظ من حماد وشريك. وقد أخرجه البيهقي من طريق الطيالسي، ثم قال: وهذا الإسناد غير قوي ! فتعقبه ابن التركماتي بقوله: الوجه الأول أحرجه الحازمي في الناسخ والمنسوخ وقال: لا يعرف مجوداً متصلاً إلا من حديث يعلى بن عطاء، وأخرجه أيضا ابن حبان في صحيحه ؛ قالاحتجاج به كافً ! أقول: الإنصاف أن تقول: إن الاحتجاج به وحده لا يكفي؛ لأنه- وإن سلم من الاضطراب المخل-؛ فإنه من رواية عطاء أبي يعلى، وقد عرفت أنه مجهول الحال، وقد اشتهر ابن حبان بتوثيق أمثاله من المجهولين.لكن الحديث صحيح بما له من الشواهد التي منها: ما أخرجه أبو بكر البزار في
مسنده : ثنا إبراهيم بن سعيد: ثنا روح بن عبادة عن ابن أبي ذئب عن نافع: أن ابن عمر كان يتوضأ ونعلاه في رجليه، ويمسح عليهما، ويقول: كذلك كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفعل. وقد قال ابن القطان: إنه حديث صحيح. كما في شرح علوم الحديث (ص 12) للحافظ العراقي. قلت: وهو صحيح على شرط مسلم. وابن سعيد هذا: هو الجوهري البغدادي، من شيوخ المصنف الذين تقدموا في الكتاب. وبقية شواهده تراجع في الجوهر النقي ؛ ويأتي بعضها في الباب الذي يلي.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا اوس بن ابی اوس ثقفی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو اپنے جوتوں اور قدموں پر مسح کیا۔ عباد بن موسیٰ نے (اپنی روایت میں) یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک قوم کے «كظامة» پر آئے یعنی مقام وضو پر، مگر جناب مسدد نے (اپنی روایت میں) «ميضأة» اور «كظامة» کا ذکر نہیں کیا۔ پھر دونوں مشائخ (مسدد اور عباد بن موسیٰ حدیث کے باقی الفاظ بیان کرنے میں) متفق ہیں ”آپ نے وضو کیا تو اپنے جوتوں اور قدموں پر مسح کیا۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: بشرط صحت (جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے) یہ روایت سابقہ روایت پر محمول ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ اور ’’قدموں پر مسح‘‘ سے مراد ایسی صورت ہے جس میں جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جوتے یا چپل کی پٹی پر مسح فرمایا جو کہ پاؤں کے اوپر ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اوس بن ابی اوس ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے جوتوں اور دونوں پاؤں پر مسح کیا۔ عباد کی روایت میں ہے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ایک قوم کے «كظامة» یعنی وضو کی جگہ پر تشریف لائے۔ مسدد کی روایت میں «ميضأة» اور «كظامة» کا ذکر نہیں ہے، پھر آگے مسدد اور عباد دونوں کی روایتیں متفق ہیں کہ آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے دونوں جوتوں اور دونوں پاؤں پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aws ibn Abu Aws ath-Thaqafi (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) performed ablution and wiped over his shoes and feet. Abbad (a sub-narrator) said: The Messenger of Allah (ﷺ) came to the well of a people. Musaddad did not mention the words Midat (a place where ablution is performed), and Kazamah (well). Then both agreed on the wording:"He performed ablution and wiped over his shoes and feet".