Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Splashing Water (On The Private Parts))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
166.
سیدنا سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پیشاب کرتے اور وضو کرتے تو (اس کے بعد شرمگاہ والی جگہ پر) چھینٹے مار لیتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محدثین کی جماعت نے اس سند میں راوی کا نام ’’سفیان بن حکم“ کو راجح قرار دیا ہے جبکہ بعض نے حکم یا ابن حکم ذکر کیا ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لاضطرابه الشديد؛ وقد ذكر المصنف رحمه الله شيئاً منه. لكن الحديث صحيح لشواهده) .
إسناده: ثنا محمد بن كثير: ثنا سفيان- هو الثوري-. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ لكن له علتان تمنعان من الحكم عليه بالصحة: الاضطراب، والاختلاف في صحبة سفيان بن الحكم- أو الحكم بن سفيان- كما يأتي.
والحديث أخرجه البيهقي (1/161) من طريق أحمد بن سيار: ثنا محمد بن كثير... به. ومن هذا الوجه: أخرجه الحاكم أيضا (1/171) ، وقال: صحيح على شرطهما؛ وإنما تركاه للشك فيه؛ وليس ذلك مما يوهنه؛ وقد رواه جماعة عن منصور عن مجاهد عن الحكم بن سفيان . وأخرجه النسائي (1/33) ، وأحمد (3/410 و 4/212 و 5/408 و 409) من طرق أخرى عن سفيان... به. قال البيهقي: وكذا رواه معمر وزائدة عن منصور . قلت: ومن طريق زائدة: أخرجه أحمد أيضا؛ وهو في الكتاب (رقم 161) ؛ لكن زاد فيه: عن أبيه. ثمّ روى بإسناده الصحيح عن شريك قال: ساكلت أهل الحكم بن سفيان؟ فذكروا أنه لم يدرك النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قلت: فعلى هذا؛ فهو مرسل.
وصحح إبراهيم الحربي وأبو زرعة وغيرهما: أن للحكم بن سفيان صحبة! فالله أعلم. وقد اضطربوا في هذا الحديث اضطراباً كثيراً على نحو عشرة وجوه؛ لخصها الحافظ في تهذيب التهذيب ، وذكر المصنف بعضها كما يأتي، ويتبين من ذلكأن اضطرابه شديد محير، لا يمكن ترجيح وجه منها على آخر، حتى إن ابن أبي حاتم نقل في العلل (1/46) ، تصحيحين متناقضين في ذلك ! فال: (فقال أبو زرعة: الصحيح: مجاهد عن الحكم بن سفيان؛ وله صحبة. وسمعت
أبي يقول: الصحيح: مجاهد عن الحكم بن سفيان عن أبيه؛ ولأبيه صحبة ! وكذا قال الترمذي في العلل عن البخاري، والذهلي عن ابن المديني: مثل قول أبي حاتم. وبالجملة: فهذا الاضطراب يستلزم ضعف الإسناد. لكن الحديث صحيح باعتبار ما له من الشواهد: فمنها: عن ابن عباس: أنّ النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأ مرة مرة، ونضح فرجه.
أخرجه الدارمي (1/180) : أخبرنا قبيصة: آبَنا سفيان عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسارعنه. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البيهقي (1/162) من طريق العباس الدوري: ثنا قبيصة... به. وقال: قوله: ونضح... تفرد به قبيصة عن سفيان. رواه جماعة عن سفيان دون هذه الزيادة . قلت: كذلك رواه البخاري وغيره بدون الزيادة، وقد مضى في الكتاب (رقم 127) ، ولكنها زيادة من ثقة غير منافية لرواية الجماعة؛ فيجب قبولها. ومنها عن زيد بن حارثة قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: علمني جبريل الوضوء، وأمرني أن أنضح تحت ثوبي؛ لما يخرج من البول بعد الوضوء . أخرجه ابن ماجه والدارقطني (41) ، والبيهقي، وأحمد (4/161) . وهو حديث حسن؛ فقد تابع ابنَ لهيعة على متنه: رشدين بن سعد؛ دون الأمر: عند الدارقطني، كما سنبينه في صحيح ابن ماجه إن شاء الله، وانظر
الضعيفة (1312) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پیشاب کرتے اور وضو کرتے تو (اس کے بعد شرمگاہ والی جگہ پر) چھینٹے مار لیتے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محدثین کی جماعت نے اس سند میں راوی کا نام ’’سفیان بن حکم“ کو راجح قرار دیا ہے جبکہ بعض نے حکم یا ابن حکم ذکر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پیشاب کرتے تو وضو کرتے، اور (وضو کے بعد) شرمگاہ پر (تھوڑا) پانی چھڑک لیتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakam ibn Sufyan ath-Thaqafi: When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) urinated; he performed ablution and sprinkled water on private parts of the body. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: A group of scholars agreed with Sufyan upon this chain of narrators. Some have mentioned the name of Sufyan b. al-Hakam, and others al-Hakam b. Sufyan.