Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Returning Salam While Urinating ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
17.
سیدنا مہاجر بن قنفذ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرے اور آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے۔ انہوں نے سلام کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ﷺ نے وضو کیا (اور جواب دیا) اور معذرت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے یہ بات ناپسند آئی کہ طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔‘‘ راوی کو شبہ ہے کہ آپ ﷺ نے «عَلَى طُهْرٍ» کہا تھا یا «عَلَى طَهَارَةٍ» (معنی دونوں کا ایک ہی ہے)۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) یہ روایت ایک دوسرے طریق سے آتی ہے اور وہ صحیح ہے، اس میں صرف یہاں تک بیان ہے کہ نبیﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 370) اس لیے ابوداؤد کی حدیث نمبر 17 کا اگلا حصہ کہ آپ نے وضو کیا.....یہ صحیح نہیں، اس لیے یہ بات تو صحیح ثابت ہوئی کہ پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے سلام کاجواب نہ دیا جائے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ سلام کا جواب یا اللہ کا ذکر وضو کے بغیر جائز نہیں۔ (2) اس سے یہ بات بھی مستفاد ہوتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام نہ کیا جائے۔ (ص۔ی)
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا مہاجر بن قنفذ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرے اور آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے۔ انہوں نے سلام کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ﷺ نے وضو کیا (اور جواب دیا) اور معذرت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے یہ بات ناپسند آئی کہ طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔‘‘ راوی کو شبہ ہے کہ آپ ﷺ نے «عَلَى طُهْرٍ» کہا تھا یا «عَلَى طَهَارَةٍ» (معنی دونوں کا ایک ہی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) یہ روایت ایک دوسرے طریق سے آتی ہے اور وہ صحیح ہے، اس میں صرف یہاں تک بیان ہے کہ نبیﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 370) اس لیے ابوداؤد کی حدیث نمبر 17 کا اگلا حصہ کہ آپ نے وضو کیا.....یہ صحیح نہیں، اس لیے یہ بات تو صحیح ثابت ہوئی کہ پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے سلام کاجواب نہ دیا جائے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ سلام کا جواب یا اللہ کا ذکر وضو کے بغیر جائز نہیں۔ (2) اس سے یہ بات بھی مستفاد ہوتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام نہ کیا جائے۔ (ص۔ی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مہاجر بن قنفذ ؓ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے تو انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وضو کیا پھر (سلام کا جواب دیا اور) مجھ سے معذرت کی اور فرمایا: ’’مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں اللہ کا ذکر بغیر پاکی کے کروں۔‘‘ راوی کو شک ہے «عَلَى طُهْرٍ» کہا ، یا «عَلَى طَهَارَةٍ» کہا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhajir ibn Qunfudh (RA): Muhajir came to the Prophet (ﷺ) while he was urinating. He saluted him. The Prophet (ﷺ) did not return the salutation to him until he performed ablution. He then apologised to him, saying: I disliked remembering Allah except in the state of purification.