Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What Should One Say After Finishing Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
170.
ابو عقیل نے اپنے چچیرے بھائی سے انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کی ہے اور اس میں اونٹوں کے چرانے کا ذکر نہیں کیا اور ”اچھی طرح وضو کرنے“ کے موقع پر کہا کہ پھر وہ (وضو کرنے والا) اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائے (اور یہ دعا پڑھے) اور معاویہ بن صالح کی روایت کی مانند بیان کیا۔
تشریح:
فوائد مسائل: 1۔ یہ روایت ضعیف ہے اس لیے وضو کے بعد دعا پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھانا یا انگلی اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ 2۔ اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں جبکہ دوزخ کے سات ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: يعني نحو حديث ساقه قبل هذا في الباب من طريق معاوية بن صالح عن أبي عثمان عن جُبيْرِ بن نُفيْرٍ عن عقبة بن عامر قال: كنا مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُدام أنفسنا، نتناوب الرعاية... الحديث؛ وفيه سنتان: إحداهما صلاة ركعتين بعد الوضوء، والأخرى التشهد بعد الفراغ منه، وقد أوردناه في الكتاب الآخر (رقم 162) . والمقصود هنا التنبيه على زيادة منكرة وقعت فيه من هذه الطريق؛ ثم قال المصنف: ولم يذكر أمر الرعاية. قال عند قوله: فأحسن الوضوء : ثم رفع نظره إلى السماء فقال... ، وساق الحديث بمعنى حديث معاوية . قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة ابن عم أبي عقيل؛ فإنه لم يُسم، وقد تفرد بذكر رفع النظر إلى السماء؛ فهي زيادة منكرة) .إسناده: حدثنا الحسين بن عيسى: ثنا عبد الله بن يزيد المقرئ عن حيوة- وهو ابن شُريْحٍ- عن أبي عقيل عن ابن عمه. وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن عم أبي عقيل- وهو رجل مجهول- كما قال المنذري في مختصره . وأبو عقِيل: اسمه زهْرة بن معْبدٍ.
والحديث أخرجه الدارمي (1/182) ، وأحمد (1/258 رقم 121) قال: حدثنا - وقال الدارمي: أخبرنا- عبد الله بن يزيد... به. وأخرجه ابن السني (رقم 29) من هذا الوجه... مقتصراً على القول بعد الوضوء. وكذلك أخرجه أحمد أيضاً (4/150- 151) - من طريق أخرى عن زهرة عن هذا الشيخ- فقال: ثنا عبد الله بن يزيد عن سعيد بن أبي أيوب: حدثني زهرة بن معبد عن ابن عم له أخي أبيه. والحديث في صحيح مسلم وغيره؛ دون رفع البصر إلى السماء، فلم تجدها إلا في هذه الطريق، فكانت منكرة كما ذكرنا آنفاً. نعم؛ روى البزار عن ثوبان مرفوعاً بلفظ: من توضأ فأحسن الوضوء، ثم رفع طرفه إلى السماء... الحديث، ذكره في التلخيص (1/455) ، وذكر من قبْل أنه رواه الطبراني في الأوسط بلفظ: من دعا بوضوءٍ فتوضأ؛ فساعة فرغ من وضوئه يقول: أشهد أن لا إله إلا اللّه، وأشهد أن محمداً رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللهم! اجعلني من المتطهرين... الحديث؛ ولم يتكلم عليه الحافظ بشيء!وقد بين علته الهيثمي في المجمع (1/239) ، فقال بعد أن ساقه بلفظ الطبراني: رواه الطبراني في الأ وسط و الكبير باختصار، وقال في الأوسط : تفرد به مسور بن مورع ولم أجد من ترجمه، وفيه أحمد بن سهيل الوراق ذكره ابن
حبان في الثقات ، وفي إسناد الكبير أبو سعيد البقال (*) ؛ والأكثر على تضعيفه، ووثقه بعضهم . قلت: ولم يسق رواية البزار، ولا تكلم عليها بشيء؛ فلا أدري أهي بإسناد الطبراني أم غيره؟! والأقرب الأول. واللّه أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابو عقیل نے اپنے چچیرے بھائی سے انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کی ہے اور اس میں اونٹوں کے چرانے کا ذکر نہیں کیا اور ”اچھی طرح وضو کرنے“ کے موقع پر کہا کہ پھر وہ (وضو کرنے والا) اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائے (اور یہ دعا پڑھے) اور معاویہ بن صالح کی روایت کی مانند بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد مسائل: 1۔ یہ روایت ضعیف ہے اس لیے وضو کے بعد دعا پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھانا یا انگلی اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ 2۔ اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں جبکہ دوزخ کے سات ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی عقبہ بن عامر جہنی ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے ابوعقیل یا ان سے اوپر یا نیچے کے راوی نے اونٹوں کے چرانے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز آپ ﷺ کے قول : «فأحسن الوضوء» کے بعد یہ جملہ کہا ہے: ” پھر اس نے (یعنی وضو کرنے والے نے) اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ دعا پڑھی“ ۱؎ ۔ پھر ابوعقیل راوی نے معاویہ بن صالح کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوعقیل نے اپنی روایت میں اونٹ چرانے کے واقعے کا ذکر نہیں کیا ہے اور حدیث کی روایت ان الفاظ میں کی ہے: «ما منكم من أحد يتوضأ فأحسن الوضوء ثم رفع بصره إلى السماء فقال أشهد أن لا إله إلا الله إلى آخر الحديث كما قال معاوية» واللہ اعلم، رہی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی حکمت تو یہ شارع کو معلوم ہے۔
وضاحت: یہ روایت ضعیف ہے، اس لیے اس سے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانے کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Uqbah b. ‘Amir al-Juhani narrated this tradition from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) in a similar way. He did not mention about tending the camels. After the words “and he performed ablution well” he added the words: “He then raises his eyes towards the sky”. He transmitted the tradition conveying the same meaning as that of Mu’awiyah.