باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1712.
عمرو بن شعیب نے اسی سند سے روایت کیا اور گمشدہ بکری کے سلسلے میں کہا: ”یہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے، اسے لے لے اور بس۔“ اور اسی طرح اس روایت میں ایوب اور یعقوب بن عطاء نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے «فخذها» کا لفظ بیان کیا ہے۔
تشریح:
محدث یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عمرو بن شعیب کے تین تلامذہ عبیداللہ بن اخنس ایوب اور یعقوب بن عطاء صرف لفظ [فخذها] بیان کرتے ہیں۔ اس پر مزید کوئی اضافہ نہیں کرتے جیسے کہ مندرجہ ذیل روایت میں ابن اسحق نے [فأجمعها حتى ياتيها باغيها] ایک مفصل جملہ ذکر کیا ہے۔ (عون المعبود)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن، وصححه من أشرنا إليه آنفاً .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو عوانة عن عبيد الله بن الأخنس عن عمرو بن شعيب... به.وكذا قال فيه أيوب ويعقوب بن عطاء: عن عمرو بن شعيب عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: فخذها .
قلت: إسناده حسن أيضا، وهو مكرر الذي قبله.والحديث أخرجه النسائي (2/260) من طريق قتيبة: ثنا أبو عوانة... به مختصراً عن الرواية الأولى، ولكنه لم يذكر موضع الشاهد منه.وأخرجه أحمد وغيره من طرق أخرى عن عمرو بن شعيب... بلفظ الرواية الآتية. ورواية أيوب المعلقة؛ لم أر من وصلها! وأما رواية يعقوب بن عطاء؛ فوصلها الشافعي (629) ، وعنه البيهقي(4/155) : أخبرنا سفيان عن داود بن شَابُورِ ويعقوب بن عطاء عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده... بقصة اللقطة إلى الَركاز؛ لم يذكر ضالة الغنم.
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
عمرو بن شعیب نے اسی سند سے روایت کیا اور گمشدہ بکری کے سلسلے میں کہا: ”یہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے، اسے لے لے اور بس۔“ اور اسی طرح اس روایت میں ایوب اور یعقوب بن عطاء نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے «فخذها» کا لفظ بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
محدث یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عمرو بن شعیب کے تین تلامذہ عبیداللہ بن اخنس ایوب اور یعقوب بن عطاء صرف لفظ [فخذها] بیان کرتے ہیں۔ اس پر مزید کوئی اضافہ نہیں کرتے جیسے کہ مندرجہ ذیل روایت میں ابن اسحق نے [فأجمعها حتى ياتيها باغيها] ایک مفصل جملہ ذکر کیا ہے۔ (عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو ؓ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”گمشدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا: وہ بکری تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی، تو اسے پکڑے رکھو۔“ اسی طرح ایوب اور یعقوب بن عطا نے عمرو بن شعیب سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے پکڑے رکھو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by ‘Amr bin Shu’aib through a different chain of narrators. This version has: He said about the stray sheep: You, your brother or the wolf may have them. Do take it. A similar version has been transmitted by Ayyub and Ya’qub bin `Ata from `Amr bin Shu’aid from the Propher (صلی اللہ علیہ وسلم). He said : then take it.