باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1717.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں چھڑی، رسی، کوڑا اور اس قسم کی چیزیں اٹھا لینے کی رخصت دی تھی کہ انسان ان سے فائدہ اُٹھا لے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ (مغیرہ بن مسلم) ابوسلمہ سے اپنی سند سے روایت کیا ہے۔ اور شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے، انہوں نے ابولزابیر سے، انہوں نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے۔ (کہا کہ وہ لوگ چھڑی، کوڑا وغیرہ اٹھا لینے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے) اور نبی کریم ﷺ کا ذکر نہیں کیا۔ (موقوف بیان کیا ہے)۔
تشریح:
ابوالزبیر مکی سے دو حضرات روایت کرتے ہیں۔ ایک مغیرہ بن زیاد ان سے یہی متن امام ابوداؤد نے ذکر فرمایا ہے۔ دوسرے مغیرہ بن مسلم ابومسلمہ کی بیان کردہ روایت میں رسول اللہ ﷺ کی بجائے صحابی کےحوالے سے یہی بات کہی گئی ہے۔ (عون المعبود) یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن امام بخاری نے ایک باب قائم کیا ہے: باب إذا وجد خشبة في البحر أو سوطا أو نحوه یعنی جب کوئی شخص سمندر میں بہتی ہوئی لکڑی پائے یا چابک یا اس جیسی (کوئی انتہائی کم قیمت) چیز اسےمل جائے۔ اور نیچے وہ حدیث لائے ہیں جس سے سمندر میں بہتی ہوئی لکڑی کو ایندھن کے طور پر لے جانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کر کے چابک کو شامل کیا ہے۔ (فتح الباري، کتاب اللقطه، باب مذکور) اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوداؤد کی بیان کردہ یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن اس میں جو حکم بیان کیا گیا وہ دیگر دلائل کی وجہ سے صحیح ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ أبو الزبير مدلس، والمغيرة بن زياد [صدوق له أوهام ]. وفي إسناده اختلاف، فأوقفه بعضهم. وضعفه البيهقي) .إسناده: حدثنا سليمان بن عبد للرحمن الدمشْقِي: ثنا محمد بن شُعيْبٍ عن المغيرة بن زياد عن أبي الزبير المكي: أنه حدثه عن جابر...قال أبو داود: رواه النعمان بن عبد السلام عن المغيرة أبي سلمة...بإسناده. ورواه شبابةُ عن مغيرة بن مسلم عن أبي الزبير عن جابر قال: كانوا...لم يذكروا النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
قلت: إسناده ضعيف؛ لأن مداره على أبي الزبير المكي، وهو مدلس. والمغيرةابن زياد صدوق له أوهام؛ كما قال الحافظ.وقد تابعه المغيرة أبو سلمة- وهو: ابن مسلم-؛ كما في تعليق المصنف،وبين أنه قد اختُلِف عليه في إسناده؛ فقال: النعمان بن عبد السلام عنه...بإسناده.قلت: يعني: مرفوعاً. وقال شبابة عنه عن أبي الزبير... به؛ موقوفاً لم يذكرالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.والحديث أخرجه البيهقي (6/195) من طريق المصنف وغيره عن سليمان،وقال: في رفْعِ هذا الحديث شك. وفي إسناده ضعْف. والله أعلم .
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں چھڑی، رسی، کوڑا اور اس قسم کی چیزیں اٹھا لینے کی رخصت دی تھی کہ انسان ان سے فائدہ اُٹھا لے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ (مغیرہ بن مسلم) ابوسلمہ سے اپنی سند سے روایت کیا ہے۔ اور شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے، انہوں نے ابولزابیر سے، انہوں نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے۔ (کہا کہ وہ لوگ چھڑی، کوڑا وغیرہ اٹھا لینے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے) اور نبی کریم ﷺ کا ذکر نہیں کیا۔ (موقوف بیان کیا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ابوالزبیر مکی سے دو حضرات روایت کرتے ہیں۔ ایک مغیرہ بن زیاد ان سے یہی متن امام ابوداؤد نے ذکر فرمایا ہے۔ دوسرے مغیرہ بن مسلم ابومسلمہ کی بیان کردہ روایت میں رسول اللہ ﷺ کی بجائے صحابی کےحوالے سے یہی بات کہی گئی ہے۔ (عون المعبود) یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن امام بخاری نے ایک باب قائم کیا ہے: باب إذا وجد خشبة في البحر أو سوطا أو نحوه یعنی جب کوئی شخص سمندر میں بہتی ہوئی لکڑی پائے یا چابک یا اس جیسی (کوئی انتہائی کم قیمت) چیز اسےمل جائے۔ اور نیچے وہ حدیث لائے ہیں جس سے سمندر میں بہتی ہوئی لکڑی کو ایندھن کے طور پر لے جانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کر کے چابک کو شامل کیا ہے۔ (فتح الباري، کتاب اللقطه، باب مذکور) اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوداؤد کی بیان کردہ یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن اس میں جو حکم بیان کیا گیا وہ دیگر دلائل کی وجہ سے صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکڑی، کوڑے، رسی اور ان جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی کہ اگر آدمی انہیں پڑا پائے تو اسے کام میں لائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ ابوسلمہ سے اسی طریق سے روایت کیا ہے اور اسے شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے انہوں نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے روایت کیا ہے، راوی کہتے ہیں: لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی اسے جابر ؓ پر موقوف کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) gave us licence to use (for our purpose) a stick, a rope, a whip and things of that type which a man picked up; he may benefit from them.